Bihar Board class 10th Urdu Book Darakhshan Bhag 2 Solutions

Table of Contents

Darakhshan 2 Urdu Book Class 10 Solutions Bihar Board

Darakhshan भाग 2 प्रश्न उत्तर Class 10 Urdu

حمد خدائے عزوجل( شبنم کمالی)
مختصر ترین سوالات 

سوال-    شبنم کمالی کب پیدا ہوئے تھے ؟

جواب –   شبنم کمالی 22 جولائی 1938 کو پیدا ہوئے تھے  

سوال-    شبنم کمالی کہاں پیدا ہوئے تھے؟

-جواب –   شبنم کمالی پوکھریرہ ضلع سیتامڑھی میں پیدا ہوئے تھے 

سوال –    شبنم کمالی کا انتقال کب ہوا؟

-جواب –   شبنم کمالی کا انتقال 19 اگست 2004کوہواتھا

سوال –    کائنات کی تخلیق کس نے کی ہے؟

جواب –   کائنات کی تخلیق اللہ نے کی ہے

سوال-    انسان کی مشکلوں کو کون حل کرتا ہے؟

جواب –   انسان کی مشکلوں کو اللہ حل کرتا ہے

سوال –    شبنم کمالی کا اصل نام کیا ہے؟

جواب –   شبنم کمالی کا اصل نام مصطفی رضا ہے

مختصر سوالات 

سوال –    حمد کسے کہتے ہیں؟ 

جواب –   جس نظم میں اللہ کی تعریف بیان کی جائے اسے حمد کہتے ہیں-حمد میں اللہ کی بارگاہ میں عقیدت اور محبت کا اظہار کیا جاتا ہے- پوری کائنات کو بنانے والا اللہ ہے  اس لیے اس بات کی بہرحال بہت گنجائش رہتی ہے کہ اس کی حمد و ثنا میں شاعر اپنی محبت اور عقیدت کا کھل کر اظہار کر سکیں-

سوال –    حمد منقبت اور قصیدے میں کیا فرق ہے؟ 

جواب –   جس نظم میں اللہ کی تعریف بیان کی جاتی ہے اسے حمد کہتے ہیں -جس نظم میں اللہ کے اولیائے کرام کی تعریف بیان کی جاتی ہے اسے منقبت کہتے ہیں اور جس نظم میں کسی عام شخص یا کسی عام انسان کی تعریف بیان کی جاتی ہے اسےقصیدہ کہتے ہیں –

سوال-   شبنم کمالی کے تین شعری مجموعے کے نام بتائے 

جواب –  شبنم کمالی کے تین شعری مجموعے درج ذیل ہیں

انوار عقیدت,ضیاء عقیدت,ریاض عقیدت

سوال-    حمد اور نعت میں بنیادی فرق کیا ہے؟

جواب –  حمد ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں اللہ کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے جبکہ نعت ایسی نظم کو کہا جاتا ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی

تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے

بھابھی جان( سہیل عظیم آبادی)
مختصر ترین سوالات 

سوال –    سہیل عظیم آبادی کہاں پیدا ہوئے تھے؟

جواب –     سہیل عظیم آبادی پٹنہ میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    سہیل عظیم آبادی کے بچپن کا نام کیا تھا؟

جواب –   سہیل عظیم آبادی کے بچپن کا نام سید مجیب الرحمن تھا

سوال-    سہیل عظیم آبادی کے افسانوں کے پہلے مجموعہ کا نام کیا تھا اور وہ کس سال شائع ہوا تھا؟

جواب –   سہیل عظیم آبادی کے پہلے افسانوی مجموعے کا نام چار چہرے تھا- یہ کتاب 1977میں شائع ہوئی تھی

سوال –    سہیل عظیم آبادی کی ابتدائی تعلیم کس مدرسے میں ہوئی تھی؟

جواب –  سہیل عظیم آبادی کی ابتدائی تعلیم ان کے نا نیہال میں ایک معلم کی سرپرستی میں ہوئی تھی

مختصر سوالات

سوال-    رقیہ بھابھی کے جس دیور کا کردار کہانی میں پیش کیا گیا ہے اس کا نام کیا تھا؟

جواب –   رقیہ بھابھی کے جس دیور کا کردار کہانی میں پیش کیا گیا ہے اس کا نام اختر تھا

سوال –    رقیہ بھابھی کے شوہر کو بار بار کیوں جیل جانا پڑتا تھا؟

جواب –   رقیہ بھابھی کے شوہر کو سیاست کے شوق کی وجہ سے بار بار جیل جانا پڑتا تھا

سوال –    رقیہ بھابھی کس لڑکی کی تعلیم کا خرچہ خود برداشت کرتی تھی اور کیوں؟

جواب –   رقیہ بھابھی شمی نام کی لڑکی کی تعلیم کا خرچ خود برداشت کرتی تھی کیوں کہ شمی ایک غریب لڑکی تھی جو خود اپنی تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتی تھی-

سوال –    رقیہ بھابھی کو سونے کی چوڑیوں کو کیوں فروخت کروانا پڑا تھا؟

جواب –   شمی کے بھائی کے کالج کی فیس جمع کرنے کی آخری تاریخ تھی اور پیسے کا انتظام نہیں ہو سکا تھا جس کی وجہ سے رقیہ بھابھی نے اسے سونے کی چوڑیاں فروخت کرنے کے لیے دے دیا تاکہ اسے بیچ کر اس کا بھائی اپنے کالج کی فیس ادا کر سکے- 

سوال –    رقیہ بھابھی کو جب فرصت ملتی تھی تو وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے کون سا کام کیا کرتی تھی؟ 

جواب –   رقیہ بھابھی کو جب فرصت ملتی تھی تو وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے لکھا کرتی تھی ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کے نام خطوط بھی لکھا کرتی اور ان کے خطوط کا باقاعدگی سے جواب بھی دیا کرتی تھی-

فرار  (ڈاکٹر محمد محسن)
مختصر ترین سوالات 

سوال –    اکٹر محمد محسن کی پیدائش کس شہر میں ہوئی تھی؟ 

جواب –   ڈاکٹر محمد محسن کی پیدائش پٹنہ شہر میں ہوئی تھی

سوال –    ڈاکٹر محمد محسن کی تاریخ پیدائش بتائے

جواب –   ڈاکٹر محمد محسن 10 جولائی 1910 کو پیدا ہوئے تھے

سوال-    زیر نصاب افسانوں میں ڈاکٹر محمد محسن کا کون ساا فسانہ ہے؟ 

جواب –   زیر نصاب افسانوں میں ڈاکٹر محمد محسن کا افسانہ “فرار” ہے

سوال –    ڈاکٹر محمد محسن کے والد کا نام بتائیے 

جواب –   ڈاکٹر محمد محسن کے والد کا نام سید محمد رشید تھا 

سوال –    ڈاکٹر محمد محسن کس موضوع پر مہارت رکھتے تھے ؟

جواب –   ڈاکٹر محمد محسن نفسیات پر مہارت رکھتے تھے

 مختصر سوالات

سوال –     ڈاکٹر محمد محسن کی تدریسی سرگرمیوں پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   ڈاکٹر محمد محسن 1938 میں پٹنہ کالج میں شعبہ فلسفہ میں عارضی طور پرلیکچرر بحال ہوئے تھے پھر وہ 1938 میں پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں مستقل طور پر لیکچرر بحال ہوئے- 1953 میں ڈاکٹر محمد محسن شعبہ نفسیات میں صدر شعبہ نفسیات مقرر ہوئے اور 1974 میں وہ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے-

سوال –    ڈاکٹر محمد محسن کی تصنیفات کا ذکر کیجئے

جواب –   ڈاکٹر محمد محسن کی کتابوں میں انوکھی مسکراہٹ جو افسانوں کا مجموعہ ہے, نفسیاتی زاویے جو نفسیاتی مضامین کا مجموعہ ہے اور شعری مجموعہ زخم کے پھول بہت اہم ہیں-سید محمد محسن کے افسانوں کا مجموعہ انوکھی مسکراہٹ  اردو دنیا میں کافی مقبول و معروف ہوا تھا- اس مجموعے کی بیشتر کہانیاں نفسیاتی نوعیت کی ہیں-خاص طور پر انوکھی مسکراہٹ ڈاکٹر محمد محسن کی ایسی کہانی ہے جس کے ذکر کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ  مکمل نہیں ہو سکتی ہے-

سوال 2-  محمود کے کردار پر پانچ جملے لکھیے 

جواب –   محمود کا بچپن ایک ایسے ماحول میں گزرا تھا جہاں ایک عورت غلط انداز میں مردکو دباتی اور اسے ذلیل کرتی ہے – بچپن میں اپنے گھر میں محمود نے ماں کی سخت مزاجی, شدت پسندی اور باپ پر بےجا حکمرانی کا منظر دیکھا تھا جس نے محمود کو لاشعوری طور پر عورت سے متنفر اور متوحش کر دیا تھا-محمود کے دل میں عورت ذات کے لیے دہشت گھر کر گئی تھی-اس نفسیاتی نقطے نے اسے ازدواجی فرائض سے خوفزدہ کر دیا اور اس کی  شخصیت کو نامکمل بنا دیا-

کٹی ہوئی شاخ (قمر جہاں)
مختصر ترین سوالات 

سوال –    قمر جہاں کی پیدائش کب ہوئی؟ 

جواب –   قمر جہاں کی پیدائش 1951 میں ہوئی تھی

سوال –    قمر جہاں کے والد کا نام بتائیے

جواب –   قمر جہاں کے والد کا نام سید عطاء الحق تھا

سوال –    قمر جہاں کا پیدائشی تعلق صوبہ بہار کے کس ضلع سے ہے؟ 

جواب –   قمر جہاں کا پیدائشی تعلق صوبہ بہار کے سمستی پور ضلع سے ہے

سوال –    قمر جہاں کا کون سا افسانہ آپ کے نصاب میں شامل ہیں؟ 

جواب –   قمر جہاں کا افسانہ “کٹی ہوئی شاخ” ہمارے نصاب میں شامل ہیں

سوال –    قمر جہاں کس یونیورسٹی میں استاد ہیں؟ 

جواب –   قمر جہاں بھاگلپور یونیورسٹی میں استاد ہیں

مختصر سوالات 

سوال –    قمر جہاں کے حالات زندگی پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   قمر جہاں کی پیدائش 1951میں سمستی پور ضلع کے ایک گاؤں بزرگ دوار میں ہوئی تھی-ان کے والد کا نام سید عطاء الحق تھا -انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا تھا -ان کی پہلی کہانی “جنون وفا” ہے جو انہوں نے طالب علمی کے زمانے میں ہی لکھا تھا -قمر جہاں نے سند روتی مہیلہ کالج بھاگلپور سے اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز کیا اور ترقی کرکے  بھاگلپور یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو تک کے عہدہ کو سنبھالا-

سوال –    قمر جہاں کی تصانیف کی فہرست موضوع کے اعتبار سے لکھیے

جواب –   قمر جہاں کے تصانیف میں تین افسانوی مجموعے ہیں جن میں چارہ گر, اجنبی چہرے شائع ہو چکے ہیں اور ایک افسانوی مجموعہ یاد نگر زیر اشاعت ہے- قمر جہاں کی تنقیدی تصانیف میں اختر شیرانی کی جنسی و رومانی شاعری,معیار,کلام عبداللہ حافظ مشکی پوری اور حرف آگہی کا نام قابل ذکر  ہے-

سوال –    قمر جہاں کی تعلیم و تدریس کے بارے میں مختصر بیان کیجیے

جواب –   قمر جہاں روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پٹنہ آ گئی تھی جہاں انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا- قمر جہاں نے سند روتی محلہ کالج بھاگلپور سے اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز کیا اور ترقی کرکے  بھاگلپور یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو تک کے عہدہ کو سنبھالا-

سوال –    اردو کے کسی پانچ افسانہ نگاروں کے نام لکھیے

جواب –   اردو کے پانچ افسانہ نگاروں کے نام درج ذیل ہیں

عصمت چغتائی- قمر جہاں-نگار عظیم-سہیل عظیم آبادی-سید محمد محسن. 

آشیانہ  (نگار عظیم)
مختصر ترین سوالات

سوال –    نگار عظیم کا اصل نام کیا ہے؟ 

جواب –   نگار عظیم کا اصل نام ملکہ مہر نگار تھا

سوال –    نگار عظیم نے کس کس موضوع میں ایم اے کیا؟ 

جواب –   نگار عظیم نے اردو, ڈرائنگ اور پینٹنگ میں ایم اے کیا تھا

سوال –    نگار عظیم کے اولین افسانوی مجموعہ کا نام کیا ہے؟ 

جواب –   نگار عظیم کے سب سے پہلے افسانوی مجموعے کا نام “عکس” تھا

سوال –    نگار عظیم کا مجموعہ گہن کب شائع ہوا تھا؟ 

جواب –   نگار عظیم کا مجموعہ گہن 1999میں شائع ہوا تھا

سوال –    نگار عظیم کے سفر نامہ کا نام کیا ہے؟

جواب –   نگار عظیم کے سفرنامہ کا نام “گرد آوارگی” ہے

مختصر سوالات

سوال –    نگار عظیم کی شخصیت پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   نگار عظیم عہد حاضر کی ایک اہم افسانہ نگار ہیں-اپنے وقت کی خواتین افسانہ نگاروں میں ان کی خاص پہچان یوں بھی بن جاتی ہےکہ انہوں نے خواتین کے جذبات و احساسات اور ان کے مسائل پر متعدد افسانے لکھے ہیں- جبر و استحصال اور موجودہ معاشرے کے انسانیت سوز صورتحال پر انہوں نے نہایت اثر انگیز افسانے لکھے ہیں-نگار عظیم نے اردو کے علاوہ ڈرائنگ اور پینٹنگ میں بھی ایم اے کیا تھا-انہوں نے سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ پیش کرکے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے-

سوال –    صنف افسانہ پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   افسانہ اردو نثر کے تخلیقی ادب میں سب سے کم عمر اور نوخیز صنف ہیں-لیکن اس کم عمری میں بھی اس صنف نے ایسی فنی پختگی اور مقبولیت حاصل کرلی ہیں جس سے سرسری طور پر گزر جانا کسی کے لیے ممکن نہیں -اردو میں افسانے کا آغاز بیسویں صدی کے ابتدا میں ہوا اور اردو کا پہلا افسانہ “نصیر اور خدیجہ” کو تسلیم کیا جاتا ہے-افسانہ قدم قدم پر فکر و فن کا ایسا جلال و جمال پیش کرتی ہے جس سے ذہن کو نور اور دل کو سرور حاصل ہوتا ہے- اس کے آئینے میں جہاں ہمیں اپنے ملک و قوم اور سماج کی تصویر نظر آتی ہے وہیں ہماری زندگی میں پیش آنے والی دشواریوں یا غم اور مسرت و شادمانی کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہے-

عالمی حدت
مختصر سوالات

سوال –    زمین سبھی جانداروں کے لیے مناسب ہے یا غیر مناسب؟

جواب –   زمین سبھی جانداروں کے لیے بہت مناسب ہے کیونکہ زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جہاں ہوا اور پانی موجود ہیں جو کسی بھی جاندار کو زندہ رہنے کے لیے بے حد ضروری مانا جاتا ہے- یہی نہیں زمین کا درجہ حرارت ہر جاندار کے لیے بہت ہی موزوں ہیں جبکہ دوسرے اور کسی بھی سیارے کا درجہ حرارت پودوں اور جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہے- یا تو یہ سیارے بہت ٹھنڈے ہیں یا پھر بہت گرم- 

سوال –    گلوبل وارمنگ کیسا مسئلہ ہے؟

جواب –   گلوبل وارمنگ بےحد سنگین مسئلہ ہےجس پر وقت رہتے سبھی ممالک کو ایک ساتھ مل کرکوئی حتمی فیصلہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقت میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہماری زمین پرآنے والے خطرات کو ٹالا جا سکے اور اس زمین پر رہنے والے سبھی جانداروں کی زندگیوں کو محفوظ رکھا جا سکے-

سوال –    گلوبل وارمنگ کیا ہے؟ 

جواب –   زمین کے درجہ حرارت میں ہونے والے اوسط اضافے کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے -آج گلوبل وارمنگ ایک سنگین عالمی مسئلہ اور چیلنج بن چکا ہے -دنیا کے سارے سائنسدان اس مسئلے پر بہت فکر مند ہیں اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کئی اہم اقدام الگ الگ ممالک میں لیے جا رہے ہیں- 

سوال –    گرین ہاؤس گیسوں میں کون کون سی گیس شامل ہیں؟ 

جواب –   ویسی گیسیں جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کے لئے ذمہ دار ہوتی ہےانہیں گرین ہاؤس گیس کہا جاتا ہے- کاربن ڈائی آکسائیڈ, میتھین, نائٹرس آکسائڈ, اوزون وغیرہ گیسوں کوگرین ہاؤس گیس کہا جاتا ہے-

سوال –    زمین کے درجہ حرارت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس کا کتنا اضافہ ہوا ہے؟

جواب –   زمین کے درجہ حرارت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پہلے کے مقابلہ میں 31 فیصد اور میتھین 149 فیصد زیادہ پیدا ہونے لگی ہے-میتھین گیس دھان کے کھیتوں اور گائے بھینس کے گوبر سے زیادہ نکلتی ہے- 

سوال –    گلوبل وارمنگ سے بچنے کے لیے طلبا کو عبدالکلام صاحب نے کونسا جادوئی منتر بتایا تھا؟

جواب –   گلوبل وارمنگ سے بچنے کے لیے عبدالکلام صاحب نے طلباء کو یہ جادوئی منتر دیا تھا کہ اگر ہندوستان کے 10 سے 17 سال کی عمر والے 20 لاکھ بچے پانچ پانچ درخت لگا دیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل آسانی سےحل ہو جائیں گے-

ریا (سرسید احمد خان) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    سرسید کی پیدائش کب ہوئی؟ 

جواب –   سرسید احمد خاں دلی کے ایک معزز گھرانے میں 1817 میں پیدا ہوئے تھے 

سوال –    سرسید کی والدہ کا نام کیا تھا؟  

جواب –   سرسید کی والدہ کا نام عزیز النساء تھا

سوال –    سر سید کی وفات کب ہوئی تھی؟ 

جواب –   سرسید احمد  کا انتقال 1898 میں ہوا تھا

سوال –    سرسید کا کون سا مضمون آپ کے نصاب میں شامل ہیں؟

جواب –   سرسید کا مضمون “ریا” ہمارے نصاب میں شامل ہے

مختصر سوالات 

سوال –    سرسید کی زندگی کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   سرسید احمد خان (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء)  انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کا حامل، مصلح اور فلسفی تھے۔ سر سید احمد خان ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے جس کے مغل دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے ۔ سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی-انہوں نے تہذیب الاخلاق کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا-سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں ایک اسکول کھولا تھاجو 1978 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بنا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا- 

سوال –    مضمون کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   مضمون ایک ایسی قدیم نثری صنف ہے جس میں کسی ایک مخصوص عنوان پر سیرحاصل بحث ہوتی ہے-مضمون مختصر بھی ہوتا ہے اور طویل بھی-ضرورت اور معیار کے مطابق آج کے زمانے میں مضمون لکھا جاتا ہے-مضمون نگاری میں کافی آزادی اور کشادگی ہوتی ہیں ہم ایک جاندار اور معمولی چیزوں پر بھی مضمون لکھ سکتے ہیں-مضمون کئی قسم اور نوعیت کے ہوسکتے ہیں جیسے علمی مضامین ،سائنسی مضامین مذہبی, اخلاقی, اصلاحی اور سیاسی مضامین-اردو کے مشہور و معروف مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان, محسن الملک, محمد حسین آزاد, الطاف حسین حالی, ذکااللہ, خواجہ حسن نظامی, رشید احمد صدیقی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں-


 

ادب کی پہچان  (ڈاکٹر عبدالمغنی) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    نصاب میں شامل مضمون “ادب کی پہچان” کے مضمون نگار کون ہیں؟ 

جواب –   نصاب میں شامل مضمون ادب کی پہچان کے مضمون نگار ڈاکٹر عبدالمغنی ہیں 

سوال –    ڈاکٹر عبدالمغنی  کب اور کہاں پیدا ہوئے؟ 

جواب –   ڈاکٹر عبدالمغنی کی پیدائش بہار کے اورنگ آباد ضلع میں 1934 میں ہوئی تھی

سوال –    ڈاکٹر عبدالمغنی کی دو کتابوں کا نام لکھیے 

جواب –   ڈاکٹر عبدالمغنی کی دو کتابیں ہیں- معیار و اقدار, تشکیل جدید

سوال –    ڈاکٹر عبدالمغنی نے کس مدرسے میں کہاں تک تعلیم حاصل کی؟

جواب –   ڈاکٹر عبدالمغنی نے مدرسہ شمس الہدیٰ سے عالم کی سند لی تھی

سوال –    ڈاکٹر عبدالمغنی نے اپنی ملازمت کا آغاز کس کالج سے کیا؟ 

جواب –   ڈاکٹر عبدالمغنی نے اپنی ملازمت کا آغاز انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے پٹنہ یونیورسٹی کے پٹنہ کالج سے کیا تھا-

مختصر سوالات

سوال –    ڈاکٹر عبدالمغنی کی تنقید نگاری پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   ڈاکٹر عبد المغنی بہار کے دانشوروں اور تنقید نگاروں میں ممتاز مانے جاتے ہیں-عہد حاضر کے شعر و ادب اور فکر و نظر کو وسعت اور شفافیت کے ساتھ پیش کرنے والوں اور ایک مخصوص تنقیدی اصول کو مقبول بنانے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا-ڈاکٹر عبدالمغنی نے شعر و ادب کی متعدد اصناف کے بارے میں اپنے مطالعات پیش کیے ہیں-ان کا سب سے خاص موضوع اقبال رہا ہے-زندگی اور ادب کے حوالے سے ان کا جو ایک مخصوص تعمیری نقطہ نظر تھا اسے انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے-ان کی کچھ اہم ترین تنقیدی تصانیف میں جادہ اعتدال, نقط نظر,معیار و اقدار, تشکیل جدید, اقبال اور عالمی ادب وغیرہ ہیں- 

سوال –    ادب کی پہچان پر مختصر روشنی ڈالیے

جواب –   زیر نصاب مضمون ادب کی پہچان ڈاکٹر عبدالمغنی کی لکھی ہوئی ایک مضمون ہے-اس مضمون میں عبدالغنی نے اس بات پر مکمل زور دیا ہے کہ ہر تحریر ادبی نہیں ہوتی اور ہر ادب کا معیاری ہونا بھی لازمی ہے- ایک فنکار اپنا فنی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ اس میں کس موضوع کو پیش کر رہا ہے اور کس انداز میں پیش کر رہا یہ سبھی باتیں ادب کی پہچان میں شامل ہوتی ہیں-ڈاکٹر عبدالمغنی کے مطابق و فنی نمونہ جسے پڑھ کر ہمارے اندر سرور انبساط محسوس ہو اور ہم آسودگی کا احساس کریں تو ادب میں شامل ہوتا ہے-ادب انسان کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو تہذیب انسانی بھی سناتا ہے اور ہمیں مہذب بنانے میں مددگاربھی ہوتا ہے-

سوال –    ادب کی پہچان کے حوالے سے ادب کی مختصر تعریف لکھیے

جواب –   کسی فنکار کا وہ فنی نمونہ جسے پڑھ کر ہمارے اندر سرور محسوس ہو اور ہم آسودگی کا احساس کریں وہ فن ادب میں شامل ہو جاتا ہے-دوسرے الفاظ میں کہیں تو مکمل اور کامل ادب وہ  ہے جس میں بہترین فن کا اظہار بہترین فکر کے ساتھ کیا گیا ہو,جس میں اسلوب کی نفاست کے ساتھ ساتھ موضوع کی متانت بھی ہو,جس میں مواد کی ثقاہت اور ہیئت کی لطافت دونوں موجود ہوں-

ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر
مختصر ترین سوالات 

سوال –    بھیم راؤ امبیڈکر کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

جواب –   بھیم راؤ امبیڈکر کی پیدائش 14 اپریل 1891 کو مہو, سینٹرل انڈیا میں ہوئی تھی

سوال –    بھیم راؤ امبیڈکر کے والدین کا نام لکھیے

جواب –   بھیم راؤ امبیڈکر کے والد کا نام رام جی مالوجی سکپال اور والدہ کا نام بھیم بائی تھا

سوال –    بھیم راؤ کے والدفوج میں کس عہدے سے سبکدوش ہوئے؟

جواب –   بھیم راؤ کے والد جس وقت فوج سے ریٹائر ہوئے اس وقت ان کا عہدہ دوسری گرینڈیرز میں صوبیدار میجرکا تھا- 

سوال –    بھیم راؤ کی شادی کس عمر میں اور کس سے ہوئی تھی؟ 

جواب –   بھیم راؤ کی سادی چودہ برس کی عمر میں نو برس کی لڑکی راما بائی سےہوئی تھی

سوال –    بی اے کرنے کے لئے بھیم راؤ نے کس کالج میں داخلہ لیا؟

جواب –   بی اے کرنے کے لئے بھیم راؤ نے الفنسٹن کالج میں داخلہ لیا تھا

سوال –    بدھ مذہب میں نروان کا کیا تصور ہے؟

جواب –   بدھ مذہب کے ماننے والےکسی کے مر جانے کے واقعے کو نروان کہا کرتے ہیں

مختصر سوالات

سوال –    اسکول میں بھیم راؤ امبیڈکر کے ساتھ طلباء اور اساتذہ کا سلوک کیسا تھا؟

جواب –   اسکول میں بھیم راؤ کے ساتھ ذات پات کا بھید بھاؤ کیا جاتا تھا- صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ اسکول کے اساتذہ بھی انہیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے-بھیم راؤ کو اپنے ذات کی وجہ سے بہت بےعزتی سہنی پڑتی تھی-انہیں اسکول میں دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی-انہیں اسکول کے اندراپنے ساتھ پڑھنے والے طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی نفرت اور حقارت اور ان کی بےعزتی بھی سہنی پڑی-

سوال –    بھیم راؤ کا خاندان بمبئی جاکر کیوں بس گیا؟

جواب –   جب بھیم راؤ کے والد رام جی مالوجی سکپال کی ستارہ والی نوکری ختم ہو گئی تو ان کا پورا خاندان ممبئی جاکر بس گیا-یہیں بھیم راؤ امبیڈکر کے ہائی اسکول کی پڑھائی شروع ہوئی-

سوال –    بھیم راؤ کے حصول تعلیم پر پانچ جملے لکھے

جواب –   بھیم راؤ امبیڈکر تعلیم کے معاملے میں شروع میں سنجیدہ نہیں تھے -لیکن آگے چل کر جب انہیں تعلیم کی اہمیت کا احساس ہونے لگا تو انہوں نے اپنی تعلیم پر دھیان دینا شروع کیا-شروعاتی تعلیم کے بعد انہوں نے ممبئی کے الفینسٹن ہائی اسکول سے 1908 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا-1912 میں انہوں نے الفنسٹن کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کر لی-اس کے بعد وہ بڑودہ اسٹیٹ کی طرف سے ملنے والے وظیفے پر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا چلے گئے اور کولمبیا یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا-انہوں نے معاشیات میں اس یونیورسٹی سے ایم اے پاس کیا- اس کے بعد 1916 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی-1921 میں انہوں نے انگلینڈ میں ایم ایس سی اور 1923 میں ڈی ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور بیرسٹری بھی پاس کر لی-

سوال –    بھیم راؤ امبیڈکر کی آئینی خدمات کو مختصرا بیان کیجیے

جواب –   ہندوستان کی آزادی کے بعد جب ملک کی آئین سازی کا مرحلہ درپیش آیا تو دستور ساز کمیٹی میں بھیم راؤ امبیڈکر کو صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا-ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمارے ملک کو وہ دستور دیا جو مذہب، ذات، عقیدہ اور جنس کے امتیاز کو ختم کرتا ہے اور یہ تہیہ کرتا ہے کہ ملک کے تمام لوگوں کو ایک جیسے موقع فراہم کرے گا-یہ دستور مرد -مرد کے درمیان اور عورت اور مرد کے درمیان مساوات قائم کرتا ہے-اس دستور میں عام لوگوں کو شادی بیاہ، طلاق ،گود لینے، وراثت اور تعلیم کے حقوق دیے گئے ہیں-دوسرے الفاظ میں ہم کہیں تو بھیم راؤ امبیڈکر نے ہندوستان کی دستور سازی میں ایک اہم اور تاریخی کردار ادا کیا ہے-انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت میں کثیر مذہبی اور کثیر لسانی معاشرے میں برابری پیدا کی جائے-

اردو ڈرامہ نگاری اور آغا حشر  (لطف الرحمن)

سوال –    لطف الرحمٰن کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی تھی؟

جواب –   لطف الرحمٰن کی پیدائش چھپرا ضلع کے  بنیار پور قصبہ میں 1941 میں ہوئی تھی

سوال –    لطف الرحمٰن کس پارٹی کے وزیر اور ایم ایل اے رہے؟

جواب –   لطف الرحمٰن راشٹریہ جنتا دل کی سرکار میں وزیر اور ایم ایل اے رہے تھے

سوال –    لطف الرحمٰن کے کسی دو کتاب کا نام لکھیے

جواب –   لطف الرحمٰن کی دو کتابیں درج ذیل ہیں-جدیدیت کی جمالیات اور نقد نگاہ

سوال –    آغا حشر کے کسی ایک ڈرامے کا نام لکھیے

جواب –   رستم و سہراب

سوال –    ڈراما کی تکمیل کا لازمی عنصر کیا ہے؟

جواب –   ڈرامہ کے تکمیل کا لازمی عنصر یہ ہے کہ زندگی کی حقیقتوں کو فن کے موضوع کی حیثیت   دی جائے  اور ڈراموں میں سماجی اور معاشرتی مسائل کو جگہ دی جائے-

مختصر سوالات

سوال –    لطف الرحمن کی زندگی  کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   لطف الرحمن کی پیدائش چھپرہ ضلع کے بنیار پور قصبہ میں ہوئی تھی- اپنی تعلیم پوری کرنے کے بعد انہوں نے بھاگلپور یونیورسٹی سے اپنے تدریسی خدمات کا آغاز کیا تھا- لطف الرحمن کو طالب علمی کے زمانے سے ہی مضمون نویسی اور شعر و شاعری سے دلچسپی تھی-تنقید افسانہ نگاری اور شاعری آپ کے مخصوص موضوعات رہے ہیں- آپ کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور تنقید کے موضوع پر بھی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں-

سوال –    مضمون نگاری کی مختصر تعریف لکھیے

جواب –   مضمون ایک ایسی قدیم نثری صنف ہے جس میں کسی ایک مخصوص عنوان پر سیرحاصل بحث ہوتی ہے-مضمون مختصر بھی ہوتا ہے اور طویل بھی-ضرورت اور معیار کے مطابق آج کے زمانے میں مضمون لکھا جاتا ہے-مضمون نگاری میں کافی آزادی اور کشادگی ہوتی ہے- ہم ایک جاندار اور معمولی چیزوں پر بھی مضمون لکھ سکتے ہیں-مضمون کئی قسم اور نوعیت کے ہوسکتے ہیں جیسے علمی مضامین سائنسی مضامین مذہبی, اخلاقی, اصلاحی اور سیاسی مضامین-اردو کے مشہور و معروف مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان, محسن الملک, محمد حسین آزاد, الطاف حسین حالی, ذکااللہ, خواجہ حسن نظامی, رشید احمد صدیقی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں-

سوال –    تنقید کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   تنقید عربی کا لفظ ہے جو نقد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی “ کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا”  ہے۔ اصطلاح میں اس کامطلب کسی ادیب یا شاعر کے فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہے۔ خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر کے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر یا ادیب نے موضوع کے لحاظ سے اپنی تخلیقی کاوش کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے- مختصراً فن تنقید وہ فن ہے جس میں کسی فنکار کے تخلیق کردہ ادب پارے پر اصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل ، صحیح و غلط اور اچھے اور برے کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔ اس پرکھ تول کی بدولت قارئین میں ذوق سلیم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-

احمد سرور اپنے مضمون “تنقید کیا ہے” میں لکھتے ہیں. ” تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیتی ہے ـتنقید وضاحت ہے، تجزیہ ہے، تنقید قدریں متعین کرتی ہےـ ادب اور زندگی کو ایک پیمانہ دیتی ہے ـ تنقید انصاف کرتی ہےـ ادنی اور اعلی، جھوٹ اور سچ، پست اور بلند کے معیار کو قائم کرتی ہےـ” 

سوال –    ڈرامہ کی مختصر تعارف لکھیں

جواب –   ڈرامہ کا شمار اردو ادب کی اہم ترین اصناف میں ہوتا ہے- ارسطو نے سب سے پہلے ڈرامہ کی تاریخ بتائیں تھی-ارسطو کے مطابق ڈرامے کو انسانی اعمال کی عکاسی قرار دیا گیا- ڈراما خود زندگی تو نہیں انسانی زندگی کو پیش کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے- عمل کو ڈرامے کی جان کہی جاتی ہے- ڈرامہ ادب کی ایسی صنف ہے جس نے زندگی کے حقائق اور مظاہر کو اشخاص اور مکالمہ کے وسیلے سے عمل کے ذریعے پیش کیا جائے-ڈرامہ نگاری میں اسٹیج اداکار اور تماشائی کو مدنظر رکھا جاتا ہے-

سوال –    آغا حشر کشمیری کی ڈراما نگاری پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   آغا حشر کی ڈرامہ نگاری کا آغاز 1901 میں ہوا-علی گڑھ تحریک کی وجہ سے نئی نئی تخلیق سامنے آ رہی تھی لیکن ڈرامہ نگاری اپنے پرانے ڈگر پر سفر طے کرتی رہی-ان سے پہلے طالب بنارسی بیتاب دہلوی اور احسن لکھنوی نے بھی ڈراموں میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں لیکن یہ ساری تبدیلیاں عوام کی پسند اور ناپسند کا خیال میں رکھتے ہوئے کی گئی تھی-آغا حشر بھی اپنے ابتدائی دور میں اپنے سے پہلے والے مصنفوں سےمتاثر رہے-مگر جلد ہی انہوں نے اپنا ایک مختلف راستہ چنا-آغا حشر پہلے ایسے ڈرامہ نگار ہیں جنہوں نے سب سے پہلےعصری زندگی کی حقیقتوں کو موضوع فن کی حیثیت دیں اور اپنے ڈراموں میں سماجی اور معاشرتی مسائل کو جگہ دی-جدید اردو ادب اور شاعری میں جو مقام محمد حسین آزاد حالی اور شبلی کا ہے وہی مقام اردو ڈرامہ نگاری میں آغا حشر کو حاصل ہے-

آریہ بھٹ اور تریگنا
مختصر سوالات 

سوال –    سورج گرہن اور چاند گرہن کا مختصر تعارف پیش کیجئے

جواب –   چاند زمین کا طواف کرتا ہے اور زمین سورج کا طواف کرتی ہےاس لئے چاند اور زمین کے اس طواف کے دوران چاند کا زمین اور سورج کے بیچ میں آ جانا لازمی ہے-چنانچہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چاند کا جزوی یا مکمل سایا سورج پر پڑتا ہے اور سورج کی روشنی زمین پر آنے میں مزاحمت پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں سورج گرہن ہوتا ہے-

جزوی اور مکمل سورج گرہن اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ چاند اپنا سایہ سورج پر کس طرح اور کس زاویے سے ڈالتا ہے-یعنی جزوی سایہ ڈالنے پر جزوی سورج گرہن ہوتا ہے اور مکمل سایہ ڈالنے پر مکمل سورج گرہن ہوتا ہے-

سوال –    آریہ بھٹ کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش پر روشنی ڈالیے

جواب –   آریہ بھٹ کی جائے پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ کہنا مشکل ہے لیکن قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ پٹنہ کے مغرب میں کھگول میں ان کی پیدائش ہوئی تھی-چونکہ کھگول کے معنی علم نجوم سے ہوتا ہے اور آریہ بھٹ کا تعلق علم نجوم سے تھا اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ کھگول ہی آریہ بھٹ کی جائے پیدائش ہے-ان کی تاریخ پیدائش 476 ہے-

سوال –    تریگنا کے محل وقوع پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   تریگنا پٹنہ سے دکھن جانب 30 کلومیٹر کی دوری پر مسوڈھی سب ڈویژن میں واقع ہے-تریگنا کا علاقہ مغرب میں سون ندی اور مشرق میں پن پن ندی تک پھیلا ہوا ہے- تریگنا کے محلے وقوع کو دیکھ کر پتہ چلتاہے کہ وہاں سالوں بھر آسمان میں فضا صاف رہتی ہے- یہاں سے تاروں سیاروں اور مکمل نظام شمسی کی تحقیق کرنا نسبتا آسان ہے یہی وجہ ہے کہ آریہ بھٹ نے اپنے جغرافیائی تحقیق کے لیے اس مقام کو منتخب کیا اور وہاں اپنے تحقیق کے لیے تجربہ گاہ بنایا-کہا جاتا ہے کہ آریہ بھٹ نے تریگنا میں ساٹھ فٹ کی بلندی کا ایک ٹیلہ بنایا تھا جس پر بیٹھ کر وہ رات کو تاروں اور سیاروں کے بارے میں تحقیقی کام کیا کرتے تھے-نظام شمسی کی رفتار سورج گرہن اور چاند گرہن کے بارے میں تفصیلی معلومات  آریہ بھٹ نےتریگنا میں ہی حاصل کیے تھے-

سوال –    کیا سورج گرہن کو ننگی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اگر نہیں تو کیوں؟

جواب –   سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ سورج گرہن کے وقت سورج سے ایسی کرنیں نکلتی ہیں جو انسان کی آنکھوں کے لئے کافی نقصان دہ ہوتی ہیں-اس لئے سورج گرہن کو ننگی آنکھوں سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے دیکھنے کے لئے ایک خاص قسم کے چشمے ہوتے ہیں جن کی مدد سے سورج گرہن کو دیکھا جا سکتا ہے- 

سوال –     2009کے سورج گرہن کی اہمیت بیان کیجئے

جواب –   اکیسویں صدی کا سب سے بڑا سورج گرہن 22 جولائی 2009 کو پیش آیا-اس سورج گرہن کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی کہ ایسا سورج گرہن ایک صدی کے بعد ہی واقع ہوتا ہے-امریکہ کے سائنسی تحقیقی ادارہ ناسا کے ایک سائنسدان نے2008 میں اس سورج گرہن پر ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ اس سورج گرہن کو دیکھنے کے لئے سب سے مناسب ترین مقام تریگنا ہے-اس رپورٹ کی وجہ سے تریگنا کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہو گئی-

فہمیدہ اور منجھلی بیٹی حمیدہ کی گفتگو  (ڈپٹی نذیر احمد)
مختصر ترین سوالات

سوال –    نذیر احمد کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب –   نذیر احمد 6دسمبر 1836 کو ضلع بجنور کے افضل گڑھ پرگنا کی بستی کو ریٹر میں پیدا ہوئے تھے 

سوال –    نذیر احمد کے کسی دو ناول کا نام لکھیے

جواب –   مراۃ العروس اور توبۃ النصوح

سوال –    فہمیدہ اور حمیدہ نصوح کی کون تھی؟ 

جواب –   فہمیدہ نصوح کی بیوی تھی اور حمیدہ ان کی بیٹی تھی

سوال –    نذیر احمد میں کس کی تعلیم و تربیت کے لیے ناول لکھے؟

جواب –   نذیر احمد نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ناول لکھے تھے 

سوال –    زیر نصاب ناول کے اقتباس سے دو کرداروں کے نام لکھیے

جواب –   فہمیدہ اور حمیدہ

مختصر سوالات 

سوال –    نذیر احمد کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   نذیر احمد 6دسمبر 1836 کو ضلع بجنور کے افضل گڑھ پرگنا کی بستی کو ریٹر میں پیدا ہوئے تھے-نذیر احمد کو اردو کا اولین ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے-ان کے ناولوں میں مرات العروس, توبۃالنصوح اور نبات النعش کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں-احمد کے ناولوں کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ ان کے بیشتر ناول اصلاحی نقطہ نظر کے حامل رہے ہیں- جس کا پس منظر یہ ہے کہ نذیر احمد کے زمانے میں اردو ناول نے ایک فن کی حیثیت اختیار نہیں کی تھی انہوں نے اپنے بچوں کی اخلاقی تعلیم کے لیے اخلاقیات اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق چند کتابیں لکھیں جو بعد میں اردو ناول کے فروغ کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوئی-یہ نذیر احمد کے ناولوں کا ہی اثر تھا کہ ہر علاقے میں اس نوعیت کی اصلاحی تحریریں مسلسل لکھی جانے لگی اپنی تصانیف کے ذریعے نذیر احمد نے اردو ناول کے لیے میدان تیار کر دیا-74 سال کی عمر میں فالج کے اثر کی وجہ سے نذیر احمد کا انتقال ہوگیا-

سوال –    فہمیدہ کے کردار پر مختصر روشنی ڈالیے

جواب –   زیر نصاب اقتباس ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃالنصوح سے لیا گیاہے جس کے سب سے اہم کردار نصوح اور فہمیدہ ہیں-فہمیدہ نصوح کی بیوی تھی جسے نصوح نے گھر کی لڑکیوں کے اصلاح کی ذمہ داری دی تھی- جب کہ گھر کے بیٹوں کے اصلاح کے ذمہ داری نصوح نے خود سنبھالی تھی-اس اقتباس میں فہمیدہ اور ان کی بیٹی حمیدہ کے درمیان کی گفتگوکا ذکر کیا گیا ہے جس میں حمیدہ اپنی والدہ فہمیدہ سے نماز اور اللہ کے بارے میں معصومیت بھرے سوال پوچھتی ہے-

سوال –    اردو کے کسی پانچ ناول کا نام لکھیے

جواب –   اردو کے پانچ ناولوں کا نام درج ذیل ہیں

مراۃ العروس,  نباۃ النعش,  فسانہ مبتلا,  توبۃ النصوح,  گودان 

سوال –    سر سید کے عناصر خمسہ کی حیثیت سے نذیر احمد کی خدمات پر روشنی ڈالیے

جواب –   سرسید احمد خان نے قوم کی سیاسی اور سماجی اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا اسے ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعے آگے بڑھایا-نذیر احمد کے ناولوں کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کے بیشتر ناول اصلاحی نقطہ نظر کے حامل رہے ہیں- نذیر احمد کے زمانے میں اردو ناول میں ایک فن کی حیثیت اختیار نہیں کی تھی اس لیے اپنے بچوں کی اخلاقی تعلیم کے لیے انہوں نے اخلاقیات اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے چند کتابیں لکھیں جو بعد میں اردو ناول کے فروغ کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوئی-

سوال –    اصلاحی جذبے پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   قوم و ملت کے سماجی سیاسی اور معاشرتی اصلاح کے لیے اگر سب سے پہلے کسی کا نام آتا ہے تو وہ سرسیداحمدخان ہیں-ان کے بعد ڈپٹی نذیر احمد کا نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لئے کی ناول لکھیں جو آگے چل کرقوم کے سماجی سیاسی اور معاشرتی اصلاح میں کافی معاون ثابت ہوئیں- ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی جذبے کا ہی یہ کمال تھا کہ ان کے ناولوں نے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا-

مکتوب نگاری

سید شاہ کرامت حسین کرامت ہمدانی کے نام  (اسد اللہ خان غالب)
مختصر ترین سوالات

سوال –    غالب کی سن پیدائش کیا ہے؟

جواب –   غالب 1797 میں 27 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے

سوال –    غالب کہاں پیدا ہوئے تھے؟

جواب –   غالب آگرہ میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    غالب کے خطوط کے کسی ایک مجموعہ کا نام لکھیے

جواب –   غالب کے خطوط کے ایک مجموعہ کا نام “اردوئے معلیٰ” ہے

سوال –    غالب نے کتنے خطوط لکھے ہیں

جواب –   غالب نے اپنے عزیزوں دوستوں اور شاگردوں کو تقریبا نو سو خطوط لکھے ہیں

مختصر سوالات 

سوال –    مکتوب نگاری کے فن سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے

جواب –   مکتوب نگاری یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک موثر اور روایتی ذریعہ ہے-دوسرے الفاظ میں کہیں تو خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کی خیریت سے واقف ہونا اور خیالات کا تبادلہ کرنا خطوط نگاری یا مکتوب نگاری کہلاتا ہے-خطوط بالکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اپنے جذبات کو خطوط کی بیساکھی کے سہارے مخاطب تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے-مکتوب نگار اپنے احوال و کوائف کے ساتھ ساتھ اپنی روایات اپنے معاشرتی اور عصری حسیات تک اس میں مقید کر لیتا ہے جو بعد میں ایک دستاویز کی شکل بن کر محفوظ ہوجاتے ہیں-

سوال –    غالب نے اپنے خطوط میں کن باتوں کا اظہار کیا ہے؟ 

جواب –   غالب کے خطوط سے ہمیں ان کے ذہنی رویہ کی پرکھ ہوتی ہے ساتھ ہی ان کی شخصیت کے کئی پہلو بھی سامنے آتے ہیں-غالب نے اپنے خطوط میں کھل کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے-آپ نے مکتوب کے ذریعے انہوں نے اردو کو بیش بہا دولت سے نوازا ہے- ان کے مکتوبات میں بے تکلفی اور سادگی سے لبریز ماحول ملتا ہے-غالب کے خطوط بالکل مکالماتی انداز کے ہیں- وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے-وہ اپنے خطوط میں انتہائی رواں صاف و شفاف اور دلکش زبان کا استعمال کرتے ہیں-لہجے کی تندی اور ظریفانہ رنگ سے ان کے خطوط میں خاص انداز نظر پیدا ہوگیا ہے- 

سوال –    غالب نے اپنے خطوط میں دوستی اور محبت کا اظہار کن لفظوں میں کیا ہے؟ 

جواب –   غالب نے اپنے خطوط میں اپنی دوستی اور محبت کو اس طرح واضح کیا ہے کہ میں کمزور ہوں بیمار ہوں میرا حال کیا پوچھتے ہو-زندہ ہوں بس زندگی ایک حد تک باقی ہے-غزہ کے نام پر بادام کا شیرہ اور گوشت کا پانی-شام میں چند کباب کھا لیتا ہوں-ایسے میں کلام کی اصلاح مشکل کام ہےاور ایسی حالت میں جو کام ہو جاتا ہے وہی غنیمت ہے اور لائیک شکریہ ہے کہ وہ اس کو کسی طرح اصلاح کر ڈالتے ہیں-غالب اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ان کے دوست کا بھیجا ہوا سو روپیہ مل تو گیا مگر دوستی میں اس کی کوئی ضرورت نہ تھی-اپنے دوست کے شاعرانہ طبیعت کی مبارکباد دیتے ہوئے اسے سراہتے ہیں اور بری نظر سے بچنے کی دعا بھی دیتے ہیں-

سوال –    غالب کا تعارف مختصر لکھیے

جواب –   مرزا اسد اللہ خان غالب کو اردو ادب کا عظیم شاعر مانا جاتا ہے-ان کی پیدائش 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں ہوئی تھی- غالب بچپن میں یتیم ہوگئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا نصراللہ بیگ خان نے کی تھی-انہوں نے مولوی معظم کے مکتب سے ابتدائی تعلیم کی شروعات کی-وہیں سے ان کی شعر گوئی کی ابتدا ہوئی-غالب نے اردو اور فارسی دونوں ہی زبانوں میں لکھا ہے-اپنے ابتدائی دور میں غالب اسد تخلص کرتے تھےپر بعد میں غالب کرنے لگے-غالب نے اپنی تصنیف و تالیف شاعری اور مکتوب کے ذریعے اردو کو بیش بہا دولت سے نوازا ہے-15 فروری 1869 کو ان کا انتقال ہوگیا تھا-

سوال –    غالب کے خطوط کی زبان پر پانچ سطریں لکھیں

جواب –   غالب کے خطوط کی زبان انتہائی رواں صاف و شفاف اور دلکش ہیں-ایک ایسا شخص جس نے فارسی میں بہترین شاعری کی ہو اپنے عہد میں عمدہ اور بامحاورہ زبان کا استعمال کیا جو آج کے تناظر میں بھی اسی طرح اہم اور کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور ہم ترسیل و ابلاغ کے مرحلے سے آسانی سے گزر جاتے ہیں-ایک انسان جب دوسرے کو اپنی باتیں کرتا ہے تو اس تک پہنچنے کی یہ اولین شرط ہوتی ہے کہ اگلا اس کی زبان کو سمجھ رہا ہے یا نہیں-غالب کو اس میں کمال کا درجہ حاصل ہے-

اپنی بیٹی صغرا کے نام (عبدالغفور شہباز) 
مختصر ترین سوالات

سوال –    شہباز کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

جواب –   عبدالغفور شہباز کی پیدائش بہار کے باڑھ ضلع میں ہوئی تھی

سوال –    شہباز کی کتنی شادیاں ہوئیں اور ان کی بیویوں کے نام کیا ہیں؟ 

جواب –   شہباز کی دو شادیاں ہوئی تھی ان کی پہلی بیوی کا نام شمس النساء خاتون اور دوسری بیوی کا نام اشرف النشاء تھا-

سوال –    شہباز کی دو کتابوں کا نام بتائے

جواب –   شہباز کی دو کتابوں کے نام ہیں- کلیات نظیر اکبر آبادی اور خدا کی رحمت

سوال –    شہباز نے شاعری میں کن شعرا کی تقلید کی ہے؟

جواب –   شہباز نے اپنی شاعری میں نظیر اکبر آبادی الطاف حسین حالی اور اکبرکی تقلید کی ہے

سوال –    شہباز میں شامل نصاب مکتوب میں جس بچی کو مخاطب کیا اس کا نام لکھیں

جواب –   شہباز نے سامنے صاحب مکتوب میں جس بچی کو مخاطب کیا ہےاس کا نام صغرا ہے

مختصر سوالات

سوال –    شہبازکی تصنیفات پرروشنی ڈالیے

جواب –   شہباز نے مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی-ان کے کلام میں رباعیات شہباز, خیالات شہباز ,تفریح القلوب اور باقیات شہباز میں مناظرہ دین و دنیا , سالگرہ مبارک حضور نظام الدین, خدا کی رحمت, عید سعید, عروس شادی, نوحہ, تہذیب قیس ,قانون قسمت وغیرہ جیسی نظمیں ہیں-اس کے علاوہ کلیات نظیر اکبر آبادی, مصنفہ ڈاکٹر نذیر احمد, مقدمہ خیالات آزاد, مقدمہ سوانح عمری مولانا آزاد, دیباچہ نوابی دربار, دیباچہ نوابی کھیل, مقالات جمالیہ ,سیرت خسروی اور زندگانی بے نظیر ان کی تصنیفات اور تالیفات میں شامل ہیں-

سوال –    شہباز کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   شہباز کا پورا نام سید محمد عبد الغفور اور شہباز تخلص تھا-شہباز باڑھ کے رہنے والے تھے-انہوں نے بہت ہی کم عمری سے لکھنا شروع کر دیا تھا- شہباز تعلیم و تہذیب کے دلدادہ تھے اور پیروی مغربی کی دعوت عام دیتے تھے-شہباز نظیراکبرآبادی, الطاف حسین حالی اور اکبر کے مقلد اور پیروکار رہے ہیں-وہ سائنسی علوم سے بھی کافی رغبت رکھتے تھے-انہوں نے شاعری اور مکتوب نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہے-کلیات نظیر اکبر آبادی, مصنفہ ڈاکٹر نذیر احمد, مقدمہ خیالات آزاد, مقدمہ سوانح عمری مولانا آزاد, دیباچہ نوابی دربار, دیباچہ نوابی کھیل, مقالات جمالیہ, سیرت خسروی اور زندگانی بے نظیر ان کی تصنیفات اور تالیفات میں شامل ہیں-

سوال –    مکتوب نگاری کی مختصر تعریف لکھیے

جواب –   مکتوب نگاری یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک موثر اور روایتی ذریعہ ہے-دوسرے الفاظ میں کہیں تو خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کی خیریت سے واقف ہونا اور خیالات کا تبادلہ کرنا خطوط نگاری یا مکتوب نگاری کہلاتا ہے-خطوط بالکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اپنے جذبات کو خطوط کی بیساکھی کے سہارے مخاطب تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے-مکتوب نگار اپنے احوال و کوائف کے ساتھ ساتھ اپنی روایات اپنے معاشرتی اور عصری حسیات تک اس میں مقید کر لیتا ہے جو بعد میں ایک دستاویز کی شکل بن کر محفوظ ہوجاتے ہیں-

سوال –    شامل نصاب خط کیا شہباز کا ذاتی خط ہے اس پر روشنی ڈالیے؟

جواب –   شامل نصاب خط شہباز کا ذاتی خط ہے جسے انہوں نے اپنی بیٹی صغریٰ کو لکھا ہے اور دریافت کیا  ہےکہ ان کی والدہ یعنی خود انکی بیگم انہیں خط کیوں نہیں لکھتیں-اور یہ کہ وہ خود اپنا سبق یاد کر رہی ہے کہ نہیں-اپنی دونوں بیٹیوں کے لئے دعا کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر بہتر سے بہتر زندگی کے لئے تیار ہو جائیں-کیوں کہ اگر وہ اولاد کا حق ادا کر لیتی ہے تو وہ ضرور انعام پائے گی-

سوال –    شہباز نے اپنی بیٹی کو جس بات کی تلقین کی ہے اسے اجاگر کیجئے

جواب –   شہباز نے اپنی بیٹی کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ وہ اپنا سبق وقت پر یاد کیا کرے کیونکہ اگر وہ وقت پر اپنا سبق یاد کر لیتی ہے تو اسے انعام بھی ملے گا اور آگے فائدہ بھی پہنچے گا-انہوں نے اپنی بیٹی کو یہ بھی کہا ہے کہ شوق اور محنت کے ذریعے ہی انسان بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے-ساتھ ہی شہباز اپنی بیٹیوں کے لیے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر بہتر سے بہتر زندگی کے لئے تیار ہو جائیں-

مولوی سید مقبول احمد صمدانی کے نام  (مہدی افادی)
مختصر ترین سوالات

سوال –    مہدی افادی کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب –   مہدی افادی 1828 میں گورکھپور میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    مہدی افادی نے کتنی شادیاں کی تھی؟

جواب –   مہدی افادی نے تین شادیاں کی تھی

سوال –    مہدی افادی کو اردو کے علاوہ کن کن زبانوں میں مہارت حاصل تھی؟

جواب –   مہدی افادی کو اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی میں مہارت حاصل تھی

سوال –    مہدی افادی کی بیگم کا نام کیا تھا اور وہ کس نام سے مشہور تھیں؟

جواب –   مہدی افادی کی بیگم کا نام عظیم انشاء تھا جو بیگم مہدی کے نام سے مشہور تھیں

سوال –    مہدی افادی کا اصل نام کیا ہے؟

جواب –   مہدی افادی کا اصل نام مہدی حسن ہے

مختصر سوالات 

سوال –    مکتوب کی تعریف کیجئے

جواب –   مکتوب نگاری یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک موثر اور روایتی ذریعہ ہے-دوسرے الفاظ میں کہیں تو خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کی خیریت سے واقف ہونا اور خیالات کا تبادلہ کرنا خطوط نگاری یا مکتوب نگاری کہلاتا ہے-خطوط بالکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اپنے جذبات کو خطوط کی بیساکھی کے سہارے مخاطب تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے-مکتوب نگار اپنے احوال و کوائف کے ساتھ ساتھ اپنی روایات اپنے معاشرتی اور عصری حسیات تک اس میں مقید کر لیتا ہے جو بعد میں ایک دستاویز کی شکل بن کر محفوظ ہوجاتے ہیں-

سوال –    مہدی افادی کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   مہدی افادی کا اصل نام مہدی حسن ہے ان کی پیدائش 1828 میں گورکھپور میں ہوئی تھی- ان کا تعلق ایک معزز گھرانے سے تھا- ان کے والد انتہائی مذہبی آدمی تھے-مہدی افادی نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور فارسی میں بھی مہارت حاصل کی- مہدی افادی اپنے مضامین میں روشن خیالی کا تصور فراہم کرتے ہیں-اس کے ساتھ ہی ان میں جذبات اور احساسات کی کیفیات بھی بے پناہ ہیں-

مہدی افادی کے تصورات تضادات کے شکار معلوم ہوتے ہیں ایک طرف تو رومانی تحریک کا اثر ان کے ذہن پر پڑا تو دوسری طرف اس سے اختلاف کی نوعیت بھی ابھرتی رہی-

سوال –    مہدی افادی نے اپنے خط میں کس کو مخاطب کیا ہے اور وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

جواب –   مہدی افادی نے اپنے خط میں اپنے دوست مولوی سید مقبول احمد صمدانی کو مخاطب کیا ہے-اس خط میں انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ عمر کے اس مرحلے پر جب کہ دونوں حاجی ہوئے جاتے ہیں کچھ باتیں جو دائرہ لائق اعتراف ہیں ان کی ستائش ضرور ی ہے-وہ کہتے ہیں کہ انسان کی ایک عمر ہوتی ہے جب وہ کافی چاک وچوبند ہوتا ہے- مگر کچھ تو حالات کے تقاضے اور کچھ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کے جسم کی طاقت اور اس کی تیزی سے گرتی ہوئی حالت میں ہوتی ہے-اپنے شریک سفر کے بارے میں کہتے ہیں کہ جنہوں نے انہیں دام الفت میں گرفتار کیا تھا وہ آج بھی سایہ کی طرح ساتھ ہیں اور اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوئی ہیں-

بیدی سے انٹرویو  (راجندر سنگھ بیدی)
مختصر ترین سوالات

سوال –    انٹرویو لینے والوں کے نام بتائے

جواب –   انٹرویو لینے والوں کا نام عصمت چغتائی اور فیاض رفعت ہے

سوال –    کس کا انٹرویو لیا گیا؟ 

جواب –   راجندر سنگھ بیدی کا انٹرویو لیا گیا

سوال –    راجندر سنگھ بیدی کس شہر میں پیدا ہوئے تھے؟ 

جواب –   راجندر سنگھ بیدی لاہور میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    راجندر سنگھ بیدی کے پہلے افسانے کا کیا نام تھا؟ 

جواب –   راجندر سنگھ بیدی کے پہلے افسانے کا نام “مہارانی کا تحفہ” تھا

سوال –    راجندر سنگھ بیدی کی موت کب ہوئی تھی؟ 

جواب –   راجندر سنگھ بیدی کا انتقال 11 نومبر 1984 کو ہوا تھا

مختصر سوالات

سوال –    راجندر سنگھ بیدی کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟ 

جواب –   عہد حاضر کے چند بلندپایہ افسانہ نگاروں میں راجندر سنگھ بیدی کا شمار ہوتا ہے-وہ انسانی نفسیات کے نباض مانے جاتے ہیں- راجندر سنگھ بیدی کی پیدائش 1 ستمبر 1915 کو لاہور میں ہوئی تھی-راجندر سنگھ بیدی اپنے افسانوں کے کرداروں کو اس طرح سے تراشتے ہیں جیسے ایک سنگ تراش پتھر کے ٹکڑوں کو اپنی چھینی سے تراش کر زندہ اور اصل وجود میں بدل دیتا ہے-

سوال –    راجندر سنگھ بیدی نے کن کن دفاتر میں کام کیے؟

جواب –   میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد راجندر سنگھ بیدی نے محکمہ ڈاک میں کچھ وقت تک ملازمت کی تھی- راجندر سنگھ بیدی کا تعلق آل انڈیا ریڈیو سے طویل مدت تک رہا ہے اور وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی سرفراز رہے ہیں-

سوال –    راجندر سنگھ بیدی لاہور کے کس محکمہ میں کام کرتے تھے؟

جواب –   راجندر سنگھ بیدی لاہور کے محکمہ ڈاک میں کام کرتے تھے

سوال –    عصمت آپا کی شخصیت پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   عصمت چغتائی کی پیدائش 21 اگست، 1915ء میں ہندوستان کے شہر بدایوں میں ہوئی۔ عصمت چغتائی ہندوستان کی ایک مشہور اردو مصنفہ، جنہوں نے افسانہ نگاری، خاکہ نگاری اور ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔ اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔ جبکہ جودھ پور میں پلی بڑھیں، جہاں ان کے والد،مرزا قسیم بیگ چغتائی، ایک سول ملازم تھے۔ راشدہ جہاں، واجدہ تبسم اور قراۃالعین حیدر کی طرح عصمت چغتائی نے بھی اردو ادب میں انقلاب پیدا کر دیا۔ عصمت چغتائی لکھنؤ میں پروگریسیو رائٹرز موومنٹ سے بھی منسلک رہیں۔عصمت چغتائی نے خواتین اور ان سے جڑے مسائل پر لکھا ہے۔ ان کے افسانے اور ناول متوسط طبقہ کی خواتین کی نمائندگی کرتے ہیں- عصمت چغتائی ترقی پسند ادب سے وابستہ تھیں۔ ان کا پہلا افسانہ “گیندا” ہے۔ 76 سال کی عمر میں 1991ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔

سوال –    راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر کی پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ 

جواب –   راجندر سنگھ بیدی کرشن چندر کی کہانیاں پڑھ کر بہت متاثر ہوئے -نتیجہ یہ ہوا کہ راستے سے کوئی بھی آدمی گزرتا تو وہ اس سے پوچھتے تھے کہ آپ کرشن چندر ہیں-بیدی جب پنجاب پبلک لائبریری گئے تو پتہ چلا کہ وہاں ایک کیریئر رسالہ شائع ہوتا ہے اور اس کے ایڈیٹر کرشن چندر ہیں-راجندر سنگھ بیدی وہاں گئے اور ان سے کہا آپ کرشن چندر ہیں اور وہ کہنے لگے تم راجندر سنگھ بیدی ہو اور پھر وہ دونوں گلے مل گئے-یعنی ان دونوں کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری میں ہوئی تھی-

 حصہ نظم
مناظر قدرت  (پنڈت برج نرائن چکبست)
مختصر ترین سوالات 

سوال –    چکبست کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟ 

جواب –   چکبست کا انتقال 1926میں رائے بریلی میں ہوا تھا

سوال –    چکبست نے کون کون سی ڈگریاں حاصل کی تھی؟

جواب –   چکبست نے 1905 میں بی اے پاس کیا تھا اور 1908 میں وکالت کا امتحان پاس کیا تھا

سوال –    چکبست کا انتقال کس بیماری سے ہوا تھا؟

جواب –   چکبست کا انتقال دماغ پر فالج کے حملے کی وجہ سے ہوا تھا

سوال –    چکبست کی کون سی نظم ہمارے نصاب میں شامل ہیں؟

جواب –   چکبست کی نظم مناظر قدرت ہمارے نصاب میں شامل ہے

سوال –    چکبست کا پورا نام کیا تھا؟

جواب –   چکبست کا پورا نام پنڈت برج نارائن چکبست تھا

مختصر سوالات 

سوال –    چکبست کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   چکبست کا پورا نام پنڈت برج نارائن چکبست اور چکبست تخلص ہے-انہوں نے وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی اور وکالت بھی کرتے تھے-چکبست فطری شاعر تھے اور ان کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا اور انہوں نے 9-10 سال کی عمر میں پہلی غزل کہی تھی- تب سے انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور زندگی کی آخری سانس تک  شعر گوئی میں مصروف رہے-چکبست آتش, غالب اور انیس کے شیدائی تھے- ان کی غزلوں میں آتش کا رنگ اور مسدس پر انیس کا رنگ دکھتا ہے-چکبست نے اپنی شاعری میں نئے نئےخیالات نظم کیے مگر زبان کی چاشنی اسلوب بیان لطافت اور پاکیزگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا-ان کی وفات 1926 میں رائے بریلی میں ہوئی تھی-

سوال –    جدید اردو نظم کی مختصر تعریف کیجئے

جواب –   نظم شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔ نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بحر اور قافیہ سے پابند بھی ہوتی ہے اور ان قیود سے آزاد بھی۔ اس میں مضامین کی وسعت ہوتی ہے۔ نظم زندگی کے کسی بھی موضوع پر کہی جا سکتی ہے-محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے قیام کے دوران محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی نے نظم نگاروں کی تحریک کی قیادت کی اور نظم نگاروں کی ایک جماعت قائم ہو گئی اور یہیں سے اردو ادب کی تاریخ میں جدید دور کا آغاز ہوا-جدید دور کے اردو شاعروں نے اردو نظم کو داخلیت اور علامت سے گھلا ملا کر ایک نئی راہ نکالی جسے جدید اردو نظم کا نام دیا گیا-

سوال –    زیر نصاب نظم میں شاعر نے کہاں کی منظر نگاری کی ہے؟

جواب –   زیر نصاب نظم کے شاعر چکبست نے ایک بار دہرادون کا سفر کیا تھا- دہرادون قدیم زمانے سے ہی خوبصورت پہاڑی علاقے میں شمار کیا جاتا ہے اور اپنی خوبصورتی کے لئے دور دراز کے علاقوں اور غیر ممالک میں کافی مشہورہے-یہاں پورے ہندوستان کے دور دور کےعلاقوں اور غیر ممالک کے سیاح خوبصورت فطری مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں- برج نارائن چکبست نے دہرادون کے سفر کے دوران اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا اسے ہی شعری قالب میں ڈھال دیا ہے-

سوال –    نظم کے اجزائے ترکیبی پر روشنی ڈالیں

جواب –   نظم سے مراد ایسا صنف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ نظم میں موضوع اور ہیئت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی

          نہیں ہوتی۔ جدید دور میں نظم ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے آج کئی حالتوں میں تقسیم ہو چکی ہے، جس کی پانچ بنیادی قسمیں ہیں:        

          آزاد نظم-  پابندنظم-  نثری نظم -یک مصرعی نظم -نظم  معرا

انڈیا گیٹ  (جگن ناتھ آزاد) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    جگن ناتھ آزاد کب پیدا ہوئے؟

جواب –   جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر 1918 کو عیسی خیل میں پیدا ہوئے

سوال –    جگن ناتھ آزاد کے والد کا نام کیا ہے؟

جواب –   جگن ناتھ آزاد کے والد کا نام تلوک چند محروم ہے

سوال –    انڈیا گیٹ کہاں ہے؟ 

جواب –   انڈیا گیٹ ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں ہے

سوال –    انڈیا گیٹ کی تعمیر کس نے کی؟

جواب –   انڈیا گیٹ کی تعمیر انگریزوں نے کی تھی

مختصر سوالات

سوال –    اس نظم میں شاعر نے جو کچھ کہا ہے اسے پانچ جملے میں لکھیے

جواب –   اس نظم میں شاعر جگن ناتھ آزاد نے انڈیا گیٹ کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ انڈیا گیٹ  ہندوستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے حالانکہ اس کی تعمیر انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں کی تھی لیکن اس کے باوجود اس سے ہندوستان کی عظمت کی پہچان نمایاں ہوتی ہے-شاعر کو انڈیا گیٹ کی عظمت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی بار بار ستاتا ہے کہ ہم آج بھی اپنی عظمت کی پہچان کے لئے دوسروں کے محتاج ہیں-ہندوستان کی اپنی پہچان ہمارا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہیے – آج بھی ہندوستان میں چاروں طرف غریبی بے روزگاری لاچاری کا نقشہ نظر آتا ہے لیکن پھر بھی ہم انگریزوں کی تعمیر کی ہوئی نشانی پر فخر کرنے لگتے ہیں-ہم ہندوستانیوں کو اپنی صحیح منزل سمجھنا ہوگا اور انڈیا گیٹ کو تاریخ کی ایک یادگار کے طور پر قبول کرتے ہوئے اپنے بنیادی مسائل کی طرف بھی دھیان دینا ہوگا-

سوال –    نظم کی مختصر تعریف کیجئے

جواب –   نظم شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔ نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بحر اور قافیہ سے پابند بھی ہوتی ہے اور ان قیود سے آزاد بھی۔ اس میں مضامین کی وسعت ہوتی ہے۔ نظم زندگی کے کسی بھی موضوع پر کہی جا کتی ہے-

سوال –    جگن ناتھ آزاد کے تین شعری مجموعے کے نام لکھیے

جواب –   جگن ناتھ آزاد کے شعری مجموعے درج ذیل ہیں

وطن میں اجنبی, نوائے پریشاں اور کہکشاں-

سوال –    جگن ناتھ آزاد کے مختصر حالات پانچ جملے میں لکھیے

جواب –   جگن ناتھ آزاد کی پیدائش 5 دسمبر1918 کو عیسی خیل ضلع میانوالی  پاکستان میں ہوئی تھی- ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے شاعر تھے۔ آزاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی۔جگن ناتھ آزاد محقق بھی تھے اور شاعر بھی-ان کے والد تلوک چند محروم بھی ایک شاعر تھے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی-جہاں تک شاعری کا تعلق ہے وہ غزل گوئی اور نظم نگاری دونوں پر ایک جیسی دسترس رکھتے تھے-محقق کی حیثیت سے انہوں نے بہت اہم خدمات انجام دی ہیں اور ان کا شمار ماہرین اقبالیات میں ہوتا ہے-شاعری میں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ فلموں میں بھی اپنی ایک خاص پہچان بنائی- وہ ترقی پسند دور کے ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں کلاسیکی اور روایتی رنگ کو پھیکا  نہیں پڑنے دیا-

ہم نوجوان ہیں ( پرویز شاہدی)
مختصر ترین سوالات

سوال –    پرویز شاہدی کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

جواب –   پرویز شاہدی کی پیدائش 30 ستمبر 1910 کوپٹنہ سیٹی میں ہوئی

سوال –    پرویز شاہدی کی اہلیہ کا نام کیا تھا؟ 

جواب –   پرویز شاہدی کی اہلیہ کا نام فضیلت النساء بیگم تھا

سوال –    شاعری کے کسی دو شعری مجموعے کا نام لکھیے

جواب –   پرویز شاہدی کے دوشعری مجموعے درج ذیل ہیں

رقص حیات اور تثلیث حیات- 

سوال –    تثلیث حیات کی اشاعت کب ہوئی؟

جواب –   تثلیث حیات کی اشاعت 1968 میں ہوئی تھی

مختصر سوالات

سوال –    پرویز شاہدی کی تصنیفات پر مختصر روشنی ڈالیں

جواب –   پرویز شاہدی نے شاعری کی ابتدا میں ناسخ کا رنگ اپنایا پھر غالب کی طرف مائل ہوئے -ان کے چند اشعار میں جگر مراد آبادی کا رنگ بھی ملتا ہے- پرویز شاہدی خود بھی فطرت کی طرف سے اعلی دل و دماغ لے کر آئے تھے اس لئے انہوں نے شاعری میں اپنا خود کا راستہ بنایا -اور جلد ہی اپنا انفرادی رنگ قائم کر لیا-پرویز شاہدی کی تصنیفات میں رقص حیات اور تثلیث حیات نام کے دو شعری مجموعہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں-

سوال –    پرویز شاہدی کی شاعری پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   پرویز شاہدی کا پورا نام سید اکرام حسین تھا- اردو شاعری میں وہ پرویز شاہدی کے نام سے مشہور ہوئے-پرویز شاہدی کو شعر و ادب کا ذوق خداداد تھا انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں پہلا شعر کہا تھا-شاعری کی شروعات میں اکرام تخلص رکھا پھر پرویز تخلص کرنے لگے-پرویز شاہدی نے شاعری کی ابتدا میں ناسخ کا رنگ اپنایا پھر غالب کی طرف مائل ہوئے ان کے چند اشعار میں جگر مراد آبادی کا رنگ بھی ملتا ہے- پرویز شاہدی خود بھی فطرت کی طرف سے اعلی دل و دماغ لے کر آئے تھے اس لئے انہوں نے شاعری میں اپنا خود کا راستہ بنایا اور جلد ہی اپنا انفرادی رنگ قائم کر لیا-پرویز شاہدی کی تصنیفات میں رقص حیات اور تثلیث حیات نام کے دو شعری مجموعہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں-

سوال –    زیر نصاب نظم ہم نوجوان ہیں کے پہلے بند کی تشریح کیجئے

جواب –   زیر نصاب نظم ہم نوجواں ہیں پرویز شاہدی کی لکھی ہوئی نظم ہے-اس نظم کے پہلے بند میں شاعر کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے دم سے ہی کسی بھی گلشن میں شادابیاں ہوتی ہیں ان کے دم سے ہیں بہار ہوتی ہیں- نوجوانوں کے دم سے ہی ایک کارواں چلتا ہے- نوجوان جہاں ہوتے ہیں وہاں غم کے نام و نشان نہیں ہوتے صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں ان کے دم سےزمانے کا کارواں چلتا رہتا ہے-

نوجوان چاہے تو کچھ بھی کر سکتے ہیں اگر یہ چاہیں تو اپنے دم پر جہاں کو سنوارنے یا بگاڑنے کا دم رکھتے ہیں-

سوال –    جدید نظم کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے

جواب –   نظم شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔ نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بحر اور قافیہ سے پابند بھی ہوتی ہے اور ان قیود سے آزاد بھی۔ اس میں مضامین کی وسعت ہوتی ہے۔ نظم زندگی کے کسی بھی موضوع پر کہی جا کتی ہے-محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے قیام کے دوران محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی نے نظم نگاروں کی تحریک کی قیادت کی اور نظم نگاروں کے جماعت قائم ہو گی اور یہیں سے اردو ادب کی تاریخ میں جدید دور کا آغاز ہوا-جدید دور کے اردو شاعروں نے اردو نظم کو داخلیت اور علامت سے گہلا ملا کر ایک نئی راہ نکالی جسے جدید اردو نظم کا نام دیا گیا-

سوال –    مخمس نظم کسے کہتے ہیں؟

جواب –   پانچ پانچ مصرعوں کے بندوں والی نظم کو مخمس نظم کہتے ہیں – پہلے بند کے پانچوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اس کے بعد ہر بند کے پہلے چار مصرعے الگ سے ہم قافیہ ہوتے ہیں .پانچوں مصرعے قافیے کے معاملہ میں پہلے بند کی پیروی کرتے ہیں- کبھی کبھی ایک ہی مصرع ہر بند کے آخر میں یعنی پانچویں مصرعے کے طور پر دہرایا جاتا ہے-

بجلی کا کھمبا  (ندا فاضلی)
مختصر ترین سوالات 

سوال –    ندا فاضلی کہاں پیدا ہوئے؟

جواب –   ندا فاضلی گوالیار میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    ندا فاضلی کو کون کون سےاوارڈ  سے ملے تھے؟ 

جواب –   ندا فاضلی کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ, سکھر سمان, غالب اوارڈ اور خسرو ایوارڈ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا-

سوال –    ندا فاضلی نے مشرق و مغرب کے کن کن ملکوں میں ہندوستانی ادیبوں کی نمائندگی کی؟

جواب –   ندا فاضلی نے مغرب و مشرق کے کئی ممالک جیسے یو ایس اے, یو اے ای, جرمنی, بنگلہ دیش ,پاکستان, انگلینڈ اور ماریشس وغیرہ میں ہندوستانی ادیبوں کی نمائندگی کی ہے-

سوال –    ندا فاضلی کے تین شعری مجموعے کا نام لکھیے

جواب –   ندا فاضلی کے تین شعری مجموعے درج ذیل ہیں

لفظوں کا پل, شہر میرے ساتھ چل اور زندگی کی تڑپ-

سوال –    ندا فاضلی نے سماج کے کس طبقہ کے مسائل کو اپنی نظموں میں ابھارا ہے؟

جواب –   ندا فاضلی نے کمزور اور پسماندہ طبقے کے مسائل کو اپنی نظموں میں  ابھارا ہے

مختصر سوالات

سوال –    ندا فاضلی کی شاعری کے بارے میں پانچ جملے لکھیے

جواب –   ندا فاضلی نے غزلیں اور نظمیں بھی کہیں اور دو ہے بھی لکھے- انہوں نے ہر صنف میں شہرت حاصل کی ہے-انہوں نے اپنی نظموں میں کمزور اور پسماندہ طبقہ کے مسائل کو ابھارا ہے- مختلف مذاہب اور عقیدوں کی تلمیحاتی اشاروں کو لفظوں میں پروکار انھوں نے اپنی تخلیقی ذہانت کا ثبوت دیا ہے- فنی تجربے کو انسانی زندگی کے عام تجربوں سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے-لفظوں کا پل, مور ناچ آنکھ اور خواب کے درمیان, کھویا ہوا سا کچھ, شہر میرے ساتھ چل, زندگی کی تڑپ ندا فاضلی کے کچھ قابل ذکر شعری مجموعے ہیں-

سوال –    نظم بجلی کا کھمبا کا خلاصہ اپنی زبان میں لکھئے

جواب –   نظم بجلی کا کھمبا ندا فاضلی کی لکھی ہوئی نظم ہے-اس نظم میں ندافاضلی موجودہ دور کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج ہمارے گھروں میں گلیوں میں روشنی ہے لیکن دلوں میں اندھیراہے-ایک وقت تھا کہ جب گلیوں میں اور گھروں میں روشنی نہ ہوا کرتی تھی لوگوں کے پاس اپنی زندگی کو آسان بنانے کے بہت زیادہ ذریعے نہیں تھے لیکن پھر بھی ہر انسان کے پاس دوسروں کے لئے وقت ہوا کرتا تھا-لوگ خوشی اور غم کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ اپنی خوشیاں اور غم بانٹا کرتے تھے-ہر شخص دوسروں کی ضرورتوں پر ان کے کام آیا کرتا تھا-دوسری اور آج کا زمانہ ہے کہ آج ہمارے پاس آرام و آسائش کے ہر سامان موجود ہیں لیکن پھر بھی انسان کے روح اور دل کو سکون نہیں ہے-ہر انسان خود میں کھویا ہوا سا ہے-کسی کو کسی کے لئے وقت نہیں سب اپنی زندگی میں یوں مصروف ہیں کہ دوسروں کی خوشی اور غم سے کسی کو کوئی سروکار نہیں رہتا-اسی بات کو ندافاضلی نے اپنے نظم میں بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے بیان کر دیا ہے کہ  گزرے زمانے میں لوگوں کے گھر اور گلیاں  بھلے ہی تاریک رہا کرتے تھے لیکن پھر بھی ان کے دل روشن تھے جب کہ آج ہمارے گھروں اور گلیوں میں روشنی رہا کرتی ہے لیکن ہمارےدلوں میں اندھیرا ہے-

سوال –    کوئی بجلی کا کھمبا نہیں  تھا

مگر چاند کا نور میلا نہیں تھا 

ان مصرعوں کی تشریح کیجئے-

جواب –   یہ شعر  ندا فاضلی کی لکھی ہوئی نظم بجلی کا کھمبا سے لی گئی ہے-اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ گزرے زمانے میں گلیوں میں بجلی کے کھمبے نہیں ہوتے تھےاور گلیوں میں گھروں میں تاریکی رہا کرتی تھی پھر بھی لوگوں کے دل روشن ہوا کرتے تھے- اور موجودہ زمانے میں جب کہ ہر گلی محلے میں بجلی کے کھمبے ہیں گھروں میں روشنی ہے پر لوگوں کے دلوں میں روشنی نہیں ہے لوگوں کے دل تاریک ہو چکے ہیں کوئی کسی کے کام نہیں آتا سب اپنی زندگی میں یوں

          مصروف ہیں کہ کسی کےخوشیوں اور غم میں شریک نہیں ہوتے-

کھڑا ڈنر ( سید محمد جعفری) 
مختصر سوالات 

سوال –    اس نظم کا تعلق کس صنف شاعری سے ہے؟ 

جواب –   اس نظم کا تعلق مزاحیہ نظم سے ہے

سوال –    زیر نصاب نظم کھڑا ڈنر میں شاعر نے کھانے کے کس طریقےکو طنز کا نشانہ بنایا ہے؟

جواب –   زیر نصاب نظم کھڑا ڈنر میں شاعر نے بوفےڈنر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے

سوال –    اردو کے پانچ مزاحیہ شاعروں کے نام بتائے

جواب –   اردو کے پانچ مزاحیہ شاعروں کے نام درج ذیل ہیں

دلاور فگار- سید محمد جعفری- اکبر الہ آبادی- محمد کمال اظہر- اختر شیرانی

سوال –    سید محمد جعفری کا مختصر تعارف پیش کیجئے

جواب –   سید محمد جعفری 1905 میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے-ان کے والد کا نام سید محمد علی جعفری تھا-سید محمد جعفری نے ابتدا میں عربی فارسی اور انگریزی میں تعلیم حاصل کی-ان کو تصویر کشی ,خطاطی اور مصوری سے بھی گہری دلچسپی تھی- چنانچہ انہوں نے اس فن میں بھی مہارت حاصل کیا-“شوخی تحریر” سید محمد جعفری کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ہے-جعفری کی زبان میں پختگی بھی ملتی ہے اور چاشنی بھی-یہاں کا عروج و وزن اور الفاظ و تراکیب میں بھی ان کا کمال دیکھتے بنتا ہے-

 عارف کی موت پر  (مرزا اسد اللہ خان غالب) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    غزل کی ہیئت میں غالب کی اس نظم کو آپ کیا کہیں گے؟ 

جواب –   غالب کی یہ تصنیف شخصی مرثیہ ہے

سوال –    غالب کی پرورش کس کے زیر سایہ ہوئی؟ 

جواب –   غالب کی پرورش اپنے چچا نصراللہ خاں کی سرپرستی میں ہوئی

سوال –    غالب کا پورا نام لکھیے

جواب –   غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ خان غالب تھا

سوال –    غالب کے والد کا نام بتائیے

جواب –   غالب کے والد کا نام عبداللہ بیگ خان تھا

مختصر سوالات 

سوال –    صنف شاعری کی مختصر تعریف کیجئے

جواب –   شاعری (Poetry) کا مادہ “شعر” ہے اس کے معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔  موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں- شعر تعبیر ہے تخیل ہے اسی لیے لاکھوں موزوں کلام ایسے ہیں جو شعر نہیں۔ شعر کا پہلا عنصر وزن ہے اور دوسرا عنصر خیال حقیقت کو وزن اور خیال کے سانچے میں ڈھالنا کمال سخنوری ہے-

سوال –    شخصی مرثیہ کسے کہتے ہیں؟ 

جواب –   جس نظم میں کسی عام شخص کی موت پر رنج و غم کا اظہار کیا جائے اس نظم کو شخصی مرثیہ کہا جاتا ہے-شخصی مرثیہ میں مرنے والے کی خوبیوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اس کی موت کے غم کا اثر دوسروں پر پڑے-اس میں مرنے والے کے خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے غم کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے-

سوال –    غالب کے بچپن پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   غالب کی پیدائش 1797 میں ہوئی ہے -غالب جب پانچ سال کی عمر کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا-والد کے انتقال کے بعد غالب اپنے چچا نصراللہ خاں کی سرپرستی میں پرورش پانے لگے-چچا کی موت کے بعد انہوں نے رامپور کا رخ کیا لیکن وہاں بھی چین نصیب نہ ہوا اور واپس دلی چلے گئے- اپنی زندگی کے آخری وقت تک انہوں نے دلی میں ہی زندگی گزاری-

زہر عشق  (شوق لکھنوی) 
مختصر سوالات 

سوال –    زیر نصاب نظم شاعری کی کس صنف سے تعلق رکھتی ہے؟ 

جواب –   زیر نصاب نظم زہر عشق مثنوی سے تعلق رکھتی ہیں

سوال –    صنف مثنوی سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے

جواب –   مثنوی عربی کا لفظ ہے لیکن اس صنف کو عرب میں زیادہ فروغ حاصل نہ ہوا-مثنوی در اصل فارسی کی دین ہے اور اس زبان میں اس صنف سے بڑا کام لیا گیا-

گیان چند مثنوی کی تعریف لکھتے ہوئے کہتے ہیں-مثنوی نظم کا وہ پیکر ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہو لیکن ہر شعر کے بعد قافیہ بدلتا جائے- دو دو ہم مصرعوں کی رعایت سے اس کا نام مثنوی طے پایا-موضوع کے لحاظ سے جس طرح غزل, قصیدہ, ریختی وا سوختہ اور مرثیہ وغیرہ ایک دوسرے سے ممتاز ہیں اسی طرح مثنوی کا نام لینے سے ہم ایک مخصوص احاطہ فکر کا تصور کرتے ہیں- اردو مثنوی نگاروں میں مرزا شوق لکھنوی ,دیا شنکر نسیم, میرحسن, شوق نیموی, ملا وجہی اور غواصی وغیرہ کابل ذکر ہیں-

سوال –    مثنوی نگار نے شام کا نقشہ کس طرح پیش کیا ہے؟

جواب –   مثنوی نگار میں شام کا نقشہ کچھ اس طرح پیش کیا ہےایک دن آسمان پر بادل چھایا ہوا تھا- موسم نہایت خوشگوار تھا-جب بادل برس کر کھل گئے تو اپنا دل بہلانے کے لیےمیں چھت پر چلا آیا اور ادھر ادھرٹہلنے لگا-فضا نہایت خوشگوار تھی اور چاروں طرف آسمان کی بہار چھائی ہوئی تھی- ایسے ہی وقت میں کیا دیکھتا ہوں کہ سوداگر کی بیٹی بھی اپنے سہیلیوں کے ساتھ چھت پر محوِ گفتگو ہے-

سوال –    مثنوی نگار نے سوداگر کی لڑکی کی آنکھوں کی مثال کس سے دی ہے؟

جواب –   مثنوی نگار نے سوداگر کی لڑکی کی آنکھوں کی مثال ہرن کی آنکھوں سے دی ہے اور اسےرشک چشم غزال چین آنکھیں کہا ہے- وہ اس قدر حسین تھی کہ اسے دیکھنے کی تاب شاعر میں نہیں تھی-

سوال –    مثنوی کا خلاصہ بیان کیجیے

جواب –   مثنوی زہر عشق مثنوی کی لکھی ہوئی ہے-اس مثنوی میں مثنوی نگار ایک سوداگر کی لڑکی کا ذکر کیا ہے اور اپنے اشعار کے ذریعے اس کی خوبیوں اور حسن کی تعریف کرتے ہوئے قصہ بیان کرتے ہیں-مثنوی نگار کے پڑوس میں ایک سوداگر رہتا تھاجو دولت مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت شریف بھی تھا-اس سوداگر کا تعلق ایک نہایت ہی اعلی خاندان سے تھا- اس کی ایک بیٹی تھی جو نہایت حسین اور خوبصورت تھی اسے اللہ تعالی نے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا تھا-سوداگر کی بیٹی میں ظاہری خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کردار میں بھی خوبیاں تھیں یہاں تک کہ اسے شعر گوئی کا بھی شوق تھا-ایک دن جب آسمان پر بادل چھایا ہوا تھا موسم نہایت خوشگوار تھا-جب بادل برس کر کھل چکے تو شاعر تفریح کے لئے اپنے گھر کی چھت پر گیا تو اس نے دیکھا کہ سوداگر کی بیٹی بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ چھت پر محوِ گفتگو ہے-جب اس کی ساری سہیلیاں رخصت ہوگئی اور اکیلی رہ گئی تو اتفاق سے ان دونوں کی نظریں چار ہوئی اور پہلی ہی نظر میں الفت کا تیر دل میں پیوست ہو گیا-وہ اس قدر حسین تھی کہ اسے دیکھنے کی تاب شاعری میں نہیں تھی-رفتہ رفتہ شام ہو گئی اور اس خوبصورت لڑکی کی کنیز نے آ کر اسے یہ پیغام سنایا کہ اس کی ماں نے اسے بلایا ہے-اس کے بعد سوداگر کی لڑکی چھت سے چلی جاتی ہے اور دیکھتے دیکھتےیہ سحرانگیز ماحول ختم ہو جاتا ہے-

 گلزار نسیم  (دیا شنکر نسیم) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    زیر نصاب مثنوی میں کس واقعہ کو نظم کیا گیا ہے؟

جواب –   زیر نصاب مثنوی میں بکاولی کے آنے اور اس کے وزیر بننے کی تصویر پیش کی گئی ہے-بادشاہ زین الملوک کے دربار میں پہنچ کر بکاولی اپنی غیرمعمولی اور سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے وزیر بن جاتی ہے اور پھر اپنے محبوب تاج الملوک کو تلاش کرتی ہے-

سوال –    نسیم کا پورا نام کیا تھا؟

جواب –   نسیم کا پورا نام دیا شنکر نسیم تھا

سوال –    نسیم کی پیدائش کب ہوئی؟

جواب –   نسیم کی پیدائش 1811 میں ہوئی تھی

سوال –    نسیم کی مشہور مثنوی کا نام لکھیے

جواب –   نسیم کی مشہور مثنوی “گلزار نسیم” ہے

سوال –    نسیم کے والد کا نام لکھیے

جواب –   نسیم کے والد کا نام گنگا پرشاد کول تھا

مختصر سوالات

سوال –    صنف مثنوی پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   مثنوی عربی کا لفظ ہے لیکن اس صنف کو عرب میں زیادہ فروغ حاصل نہ ہوا-مثنوی در اصل فارسی کی دین ہے اور اس زبان میں اس صنف سے بڑا کام لیا گیا-

گیان چند مثنوی کی تعریف لکھتے ہوئے کہتے ہیں-مثنوی نظم کا وہ پیکر ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہو لیکن ہر شعر کے بعد کافیہ بدلتا جائے دو دو ہم مصرعوں کی رعایت سے اس کا نام مثنوی طے پایا-موضوع کے لحاظ سے جس طرح غزل ,قصیدہ, ریختی وا سوختہ اور مرثیہ وغیرہ ایک دوسرے سے ممتاز ہیں اسی طرح مثنوی کا نام لینے سے ہم ایک مخصوص احاطہ فکر کا تصور کرتے ہیں- اردو مثنوی نگاروں میں مرزا شوق لکھنوی, دیا شنکر نسیم, میرحسن, شوق نیموی, ملا وجہی اور غواصی وغیرہ کابل ذکر ہیں-

سوال –    بکاولی اپنے محبوب کی تلاش کے لیے کیا کیا کرتی ہے؟ 

جواب –   بکاولی اپنے محبوب کی تلاش کرتے کرتے بادشاہ زین الملوک کے سلطنت میں پہنچ جاتی ہے-وہاں جانے کے بعد اپنی غیرمعمولی اور سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے وہ بادشاہ جو ملک کی وزیر بن جاتی ہے-جب وہ جنگل بیابان اور اجنبی راہوں میں تاج الملوک کو تلاش کرتے کرتے زین الملوک کی مملکت میں داخل ہوتی ہے تو یہاں کا منظر ہی کچھ اور دیکھتی ہے-اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جسے تلاش کر رہی ہے وہ اسی جگہ موجود ہے-اس لیے اس نے پری زاد ہونے کے باوجود اپنی ہیئت بدل لی اور ایک آدمی ذاد کی طرح سلطان کی آتی ہوئی سواری کے سامنے کھڑی ہو گئی-اپنی باتوں سے وہ بادشاہ کو بے حد متاثر کر دیتی ہےلہذا بادشاہ اسے اپنے ساتھ اپنے دربار لے جاتا ہے اور اپنا وزیر بنا لیتا ہے-

سوال –    زین الملوک کی مملکت میں پہنچ کر بکاولی کو کیا محسوس ہوتا ہے؟

جواب –   بکاولی جب زین الملوک کی مملکت میں داخل ہوتی ہے تو اسے وہاں کا منظر ہے کچھ اور دکھتا ہے -یہاں ہر طرف خوشی خوشی کے چہچہے تھے- باغ میں شگوفے کھل رہے تھے- چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں-اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جسے ڈھونڈ رہی ہے وہ اسی جگہ ملے گا-بکاولی کو زین ملک کی مملکت میں داخل ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسے اپنی منزل مل گئی-اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ وہ جس کی تلاش میں دربدر سالوں سے بھٹک رہی ہے وہ اسے وہیں مل جائے گا-

سوال –    نسیم کی مختصر سوانح بیان کیجیے

جواب –   نسیم کا اصل نام دیا شنکر کول اور ان کے والد کا نام گنگا پرشاد کول تھا-ان کی پیدائش 1811 میں لکھنؤ میں ہوئی تھی-اس زمانے کے رواج کے مطابق نسیم کی ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں ہوئی-دیا شنکر نسیم کو ابتدا سے ہی شعر و شاعری سے لگاؤ تھا-چنانچہ انہوں نے آتش لکھنوی کی شاگردی اختیار کرلی-ان کی مثنویوں میں ان کے استاد کا ہی رنگ نظر آتا ہے-نسیم اپنی مثنوی گلزار نسیم کی وجہ سے بے حد مشہور ہوئے ان کی شہرت کی سب سے اہم وجہ یہی ہے-گلزار نسیم اردو کی اہم ترین مثنویوں میں سے ایک ہے-ہاں ان کی شاعرانہ پختگی کے لئے یہ کافی ہے کہ تقریبا دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی مثنوی گلزار نسیم کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے-دیا شنکر نسیم نے بہت چھوٹی عمر پائی- 1845 میں ان کا انتقال ہوگیا تھا-

سوال –    بکاولی کے کردار پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   بکاولی دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کی سب سے اہم کردار ہے-بکاولی ایک پری زاد تھی جسے ایک آدم زاد تاج الملوک سے محبت ہو جاتی ہے-جب قسمت ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے توبکاولی اپنے محبوب کی تلاش میں نکلتی ہے اور جنگل جنگل بیابان اور اجنبی راہوں کی خاک چھانتی ہے-اسی تلاش کے دوران وہ بادشاہ زین الملوک کے دربار میں پہنچ کر اپنی غیرمعمولی اور سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے وزیر بن جاتی ہے-

جذبہ عشق (غلام ہمدانی مصحفی) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    مصحفی کا پورا نام کیا تھا؟ 

جواب –   مصحفی کا پورا نام غلام ہمدانی مصحفی تھا

سوال –    مصحفی کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

جواب –   مصحفی کے پیدائش 1748 میں امروہہ یوپی میں ہوئی

سوال –    مصحفی کی زیر نصاب مثنوی کا عنوان بتائیے

جواب –   مصحفی کی زیرعنوان مثنوی کا نام جذبہ عشق ہے

سوال –    مصحفی کی ابتدائی زندگی کا مختصر جائزہ لیجیے

جواب –   مصحفی کا پورا نام غلام ہمدانی مصحفی تھا-ان کی پیدائش 1939 میں امروہہ یوپی میں ہوئی تھی-امروہہ میں ہی مصحفی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی- شعر گوئی کا ذوق بھی اسی زمانے سے تھا-اسی زمانے میں وہ شعری محفلوں میں بھی جایا کرتے تھے اور اسی دوران ان کی تعلیم بھی ہوتی رہی- غلام ہمدانی مصحفی کے والد اکبر پور کے رہنے والے تھے جو امروہہ کے مضافات میں ایک قصبہ ہے –

سوال –    صنف مثنوی پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   مثنوی عربی کا لفظ ہے لیکن اس صنف کو عرب میں زیادہ فروغ حاصل نہ ہوا-مثنوی در اصل فارسی کی دین ہے اور اس زبان میں اس صنف سے بڑا کام لیا گیا-

گیان چند مثنوی کی تعریف لکھتے ہوئے کہتے ہیں-مثنوی نظم کا وہ پیکر ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہو لیکن ہر شعر کے بعد کافیہ بدلتا جائے دو دو ہم مصرعوں کی رعایت سے اس کا نام مثنوی طے پایا-موضوع کے لحاظ سے جس طرح غزل ,قصیدہ ریختی وا سوختہ اور مرثیہ وغیرہ ایک دوسرے سے ممتاز ہیں اسی طرح مثنوی کا نام لینے سے ہم ایک مخصوص احاطہ فکر کا تصور کرتے ہیں- اردو مثنوی نگاروں میں مرزا شوق لکھنوی ,دیا شنکر نسیم, میرحسن, شوق نیموی, ملا وجہی اور غواصی وغیرہ کابل ذکر ہیں-

سوال –    مصحفی کی شعری تخلیقات کو  لکھیے

جواب –   مصحفی کی شاعری میں کسی ایک خاص صنف کے پابند نہیں تھے-انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور قصیدے بھی- کئ مثنویاں بھی ان کی یادگار ہیں-مصحفی کے عشقیہ مثنویاں قابل خاص طور پر ذکر ہیں-کی مثنویوں میں بحرالمحبت بہت مشہور ہے-دوسری مثنویوں میں سردی, طفل حجام, غریب خانہ مصحفی, مودی نامہ, اجوائن اور کھٹمل نامہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں-

غزل (مبارک عظیم آبادی) 
مختصر ترین سوالات

سوال –    مبارک عظیم آبادی کہاں پیدا ہوئے؟ 

جواب –   مبارک عظیم آباد تاجپور ضلع دربھنگہ میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    مبارک عظیم آبادی کا سال پیدائش کیا ہے؟ 

جواب –   مبارک عظیم آبادی 1869 میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    مبارک عظیم آبادی کا انتقال کب ہوا؟ 

جواب –   مبارک عظیم آبادی کا انتقال 12 دسمبر 1958 کو ہوا تھا

سوال –    مبارک عظیم آبادی کے والد کا نام کیا تھا؟ 

جواب –   مبارک عظیم آبادی کے والد کا نام فداحسین وامق تھا

سوال –    اردو شاعری میں مبارک عظیم آبادی کے استاد کون تھے؟

جواب –   اردو شاعری میں مبارک عظیم آبادی کے استاد داغ دہلوی تھے

سوال –    فارسی شاعری میں مبارک عظیم آبادی کے استاد کون تھے؟

جواب –   فارسی شاعری میں مبارک عظیم آبادی کے استاد حکیم عبدالحمید پریشاں تھے

سوال –    مبارک عظیم آبادی کے شعری مجموعہ کا نام کیا ہے؟ 

جواب –   مبارک عظیم آبادی کے شعری مجموعہ کا نام جلوہ داغ ہے

سوال –    مبارک عظیم آبادی کا شعری مجموعہ کب شائع ہوا؟

جواب –   مبارک عظیم آبادی کا شعری مجموعہ جلوہ داغ 1951 میں شائع ہوا تھا

سوال –    حکومت ہند نے مبارک عظیم آبادی کی ادبی کارگزاریوں کا اعتراف کب کیا؟

جواب –   حکومت ہند نے 1954 میں مبارک عظیم آبادی کی ادبی کارگزاریوں کا اعتراف کیا

سوال –    حکومت ہند نے مبارک عظیم آبادی کی ادبی کارگزاریوں کا اعتراف کرتے ہوئے کتنا وظیفہ مقرر کیا؟

جواب –   حکومت ہند نے مبارک عظیم آبادی کی ادبی کارگزاریوں کا اعتراف کرتے ہوئے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کیا تھا-

مختصر سوالات

سوال –    مبارک عظیم آبادی نے حیدرآباد دکن کے سفر میں کس سے ملاقات کی اور کس کے یہاں قیام فرما ہوئے؟

جواب –   مبارک عظیم آبادی نے ایک بار حیدرآباد دکن کا سفر کیا تھا-وہاں وہ سر عبدالعزیز کے یہاں قیام فرما ہوئے تھے جو ان دنوں وہاں کے اہم وزیر تھے-مبارک عظیم آبادی کلکتہ گئے تو انہوں نے وہاں وحشت سے ملاقات کی-

سوال –    مبارک عظیم آبادی نے کس کے ہاتھ پر بیعت کی تھی؟

جواب –   مبارک عظیم آبادی میں حضرت مولانا سید شاہ بدر الدین قدس سرہ سجادہ نشین خانقاہ مجیبیہ کے دست مبارک پر قادریہ سلسلے سے بیعت کا شرف حاصل کیا تھا-ان کا طریقہ صلح کل کا تھا-کسی دوسرے مذہب سے انہیں نہ تو کوئی تعرض تھا نہ تعصب-

سوال –    علم طب پر مبارک عظیم آبادی نے جو کتابیں لکھیں ان کے نام لکھیں

جواب –   مبارک عظیم آبادی کو جب فکر معاش ہوئی تو طب کی طرف متوجہ ہوئے اور طب سے متعلق فارسی میں دو کتابیں لکھی میزان الطب اور طب الکبیر-لیکن جلد ہی ان کی طبیعت اچاٹ ہوگئی اور تب چھ سال تک ہومیوپیتھی کی تعلیم حاصل کی اور اپنا مطب کھولا-

سوال –    دونوں غزلوں کے قافیوں کی پہچان کیجئے اور کس غزل میں کتنے  قافیے ہیں ان کی تعداد الگ کیجیے

جواب –   پہلی غزل میں آنے والے قافیے درج ذیل ہیں

کھو- جو- بو- رو- ہو 

دوسری غزل میں آنے والے قافیے درج ذیل ہیں-

نظر- تر- در-بے خبر- چارہ گر- نظر 

غزل (احمد فراز) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    احمد فراز کی پیدائش کب ہوئی ہے؟ 

جواب –   احمد فراز کی پیدائش 1933 میں ہوئی تھی

سوال –    احمد فراز کہاں پیدا ہوئے تھے؟

جواب –   احمد فراز پاکستان کے پشاور میں پیدا ہوئے تھے

سوال –    احمد فراز کس یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے؟

جواب –   احمد فراز پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے

سوال –    احمد فراز کس ادارہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہوئے؟

جواب –   احمد فراز نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر بنے تھے

سوال –    اپنی موت سے کچھ دنوں پہلے وہ بہار کے کس صوبے کے مشاعرے میں تشریف لائے  تھے؟

جواب –   اپنی موت سے کچھ دنوں پہلے احمد فراز بہار کےدربھنگہ میں مشاعرے کے لیے تشریف لائے تھے

سوال –    احمد فراز کی شاعری کے کتنے مجموعے شائع ہوئے؟

جواب –   احمد فراز کی شاعری کے بارہ مجموعے شائع ہوئے ہیں

مختصر سوالات

سوال –    احمد فراز بنیادی طور پر کس مزاج کے شاعر ہیں؟ 

جواب –   احمد فراز بنیادی طور پر رومانی مزاج کے شاعر ہیں اور ان کی غزلوں کے مطالعے سے یہ حقیقت اجاگر ہوجاتی ہے- وہ عورتوں کے حسن و جمال سے متاثر دکھائی دیتے ہیں- ان کی شاعری کا محور روائتی حسن و عشق ہی ہے- ان کی غزلوں کے اشعار میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ بھی بالکل آسان اور عام فہم ہیں اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ احمد فراز عوام پسند شاعر بھی ہیں- انہیں الفاظ کے حسن استعمال کا ہنر اچھی طرح معلوم ہے- یہ ہنر سب کے بس کی بات نہیں اور یہی وہ خوبی ہے جو انہیں دیگر غزل گو شعراء سے ممتاز بناتی ہے-

سوال –    احمد فراز کی شاعری کا اصل محور کیا ہے؟

جواب –   احمد فراز کی شاعری کا محور حسن و عشق ہے-وہ اپنی شاعری میں حسن و عشق کی مختلف کیفیات کو نہایت سادگی کے ساتھ مگر پر اثر انداز میں شعری پیکر عطا کر دیتے ہیں-  ان کی غزلوں کے اشعار میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ بھی بالکل آسان اور عام فہم ہیں اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ احمد فراز عوام پسند شاعر بھی ہیں- انہیں الفاظ کے حسن استعمال کا ہنر اچھی طرح معلوم ہے- یہ ہنر سب کے بس کی بات نہیں اور یہی وہ خوبی ہے جو انہیں دیگر غزل گو شعراء سے ممتاز بناتی ہے-

سوال –    احمد فراز کی شاعری کس کس حلقے میں مقبول ہوئی؟ 

جواب –   احمد فراز کی شاعری عوامی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئیں-بے حد سہل انداز میں شعر کہنا اور اس انداز سے کہنا کی عوام و خاص کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لے ایک بڑی بات ہے- اور یہ کام احمد فراز بہت آسانی سے کر لیتے ہیں-ان کی بہت سی غزلیں عام انداز کی ہونے کے باوجود عوام پسند ہیں اور ساتھ ساتھ خواص پسند بھی- اس لئے ہر خاص و عام میں وہ بے حد مقبول ہیں-احمد فراز پاکستان کے بے حد مقبول شاعر سمجھے جاتے ہیں- ان کی شہرت پاکستان سے باہر بھی دور دور ممالک میں پھیلی ہوئی تھی اور وہ دوسرے ملکوں کے مشاعرے میں بھی بلائے جاتے رہے تھے-اپنی موت سے کچھ وقت پہلے وہ بہار کے دربھنگہ میں بھی ایک مشاعرے میں تشریف لائے تھے اسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر تھے-

سوال –    احمد فراز کی ادارت میں کون کون سے ماہنامہ اورہفتہ وار شائع ہوئے؟

جواب –   احمد فراز نے چند رسالوں کی ادارت بھی کی تھی-ماہنامہ اشتیاق اور داستان اور ہفتہ وار خادم ان کی ادارت میں شائع ہوتے تھے-احمد فراز کی ادبی اور شعری خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا-

سوال –    اردو غزل کی روایت میں آزاد غزل کا تجربہ کیسا رہا؟

جواب –   ایسی غزل جس میں بحر قافیہ اور ردیف کی پابندی نہیں ہوتی اسے آزاد غزل کہا جاتا ہے-اردو غزل کی روایت میں آزاد غزل کا تجربہ کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ بیشتر شاعروں کا یہ ماننا ہے کہ جس غزل میں قافیہ ردیف اور بحر کی پابندی نہ ہو وہ غزل ہی نہیں-بعض شعرا کرام کے مطابق آزاد غزل کی نہ تو کوئی ادبی حیثیت ہے اور نہ ہی یہ کوئی صنف سخن ہے-

سوال –    غزل عربی کی کس صنف سے ماخوذ ہے؟

جواب –   غزل عربی قصیدہ کی تشبیب سے ماخوذہے-تشبیہ کا تعلق شباب یعنی جوانی یا جوانی کے جذبات سے ہے-اور ظاہر ہے کہ جوانی کی جذبات میں حسن و عشق کی کیفیات شامل ہوتی ہیں-اسی وجہ سے فارسی اور اردو غزلوں میں حسن و عشق کے جذبات کا اظہار ہوتا رہا ہے-لیکن دور حاضر میں غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں حیات اور کائنات کے مختلف مسائل سمیٹے جا سکتے ہیں-

سوال –    جس غزل میں ردیف نہ ہو اس غزل کو کیا کہتے ہیں؟

جواب –   کچھ ایسی بھی غزلیں ہوتی ہیں جن میں ردیف نہیں ہوتی-ایسی غزلوں کوبغیر ردیف والی غزل یا غیر مردف غزل کہتے ہیں-

سوال –    دکن کے کس شاعر کے ذریعے اردو غزل شمال تک پہنچی؟

جواب –   ولی دکنی کے ذریعے اردو غزل دکن سے شمال تک پہنچی-ولی دکنی نے اردو غزل کو ایک خاص معیار بخشا ہے حالانکہ ان سے پہلے بھی اردو غزل کہی جاتی تھی-

سوال –    غزل کے پہلے شعر کو کیا کہتے ہیں؟

جواب –   غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اسے مطلع کہتے ہیں

سوال –    غزل کے آخری شعر کو کیا کہتے ہیں؟

جواب –   غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں

غزل (حسن نعیم) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    حسن نعیم کی پیدائش کہاں ہوئی ہے؟ 

جواب –   حسن نعیم کی پیدائش پٹنہ میں ہوئی تھی

سوال –    نعیم کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟ 

جواب –   حسن نعیم کا انتقال ممبئی میں 22 فروری 1991 کو ہوا

سوال –    حسن نعیم کس ملازمت سے مستعفی ہوئے؟

جواب –   حسن نعیم وزارت خارجہ کی ملازمت سے مستعفی ہوئے

سوال –    حسن نعیم کس ادارہ میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر مامور تھے؟ 

جواب –   حسن نعیم غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر مامور تھے 

مختصر سوالات 

سوال –    حسن نعیم کی غزل گوئی کی خصوصیات مختصر بیان کیجیے

جواب –   حسن نعیم کی غزلوں کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مومن اور غالب سے متاثر تھے لیکن وہ تقلید پسند نہ تھے- اس لئے انہوں نے اپنی راہ سب سے الگ نکالی- حسن نعیم غزل کے ایک ایسے شاعر تھے جو جدیدیت کی رسموں سے واقف تھے- لیکن ان کے لہجے میں اکثر احتجاج کا رنگ بھی شامل ہو جاتا تھا-ان کی غزلوں میں درد مندی اور حسن و عشق کی کیفیت بھی اکثر ظاہر ہوتی رہی جو کلاسیکی شاعری کی جان سمجھی جاتی ہے-حسن نعیم کی شاعری کی رنگوں سے مل کر ایک خاص رنگ اختیار کر لیتی ہے جو انہیں جدید شاعروں کے درمیان ایک الگ ہی مقام عطا کرتی ہے-

غزل ( پروین شاکر) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    پروین شاکر کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟ 

جواب –   پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو پیدا ہوئی تھیں 

سوال –    پروین شاکر کہاں پیدا ہوئی تھی؟ 

جواب –   پروین شاکر پاکستان کے کراچی میں پیدا ہوئی تھیں

سوال –    پروین شاکر کے اسلاف کا وطن کہاں ہے؟ 

جواب –   پروین شاکر کے اسلاف کا وطن ہندوستان کے لہریا سرائے دربھنگہ بہار میں تھا

سوال –    پروین شاکر کے والد کا نام بتائیے

جواب –   پروین شاکر کے والد کا نام سید ثاقب حسین تھا

سوال –    پروین شاکر کے والد ہجرت کر کے کہاں گئے؟ 

جواب –   پروین شاکر کے والد ہجرت کر کے پاکستان گئے

سوال –    پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی؟

جواب –   پروین شاکر کے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی

سوال –    پروین شاکر نے میٹرک کا امتحان کس اسکول سے پاس کیا؟ 

جواب –   پروین شاکر نے رضیہ گرلز ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا

سوال –    بی اے کی تعلیم پروین شاکر نے کس کالج میں حاصل کیا؟ 

جواب –   پروین شاکر نے سرسید گرلز کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی

سوال –    کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے کس کس سبجیکٹ میں ایم اے کیا؟ 

جواب –   پروین شاکر نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی اور لسانیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کیا

سوال –    ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے پروین شاکر نے کس سبجیکٹ میں ایم اے کیا؟

جواب –   پروین شاکر نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے بینک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا

مختصر سوالات

سوال –    پروین شاکر کی سوانح پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو پاکستان کے کراچی میں پیدا ہوئیں ان کے اسلاف کا وطن ہندوستان کے بہار کے دربھنگہ میں تھا- ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی شاعر تھے اور شاکر کا تخلص کرتے تھے-پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی-انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی اور تعلیمی سلسلہ ختم کرنے کے بعد عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی لیکچر کی حیثیت سے ملازمت کر لیں اور تقریبا نو برس تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتی رہیں-انہوں نے سیول سرویس کا امتحان دیا اور کامیاب بھی ہوئی اس کے بعد ان کا تقرر محکمہ کسٹمز میں ہو گیا اور وہ کسٹم کلکٹر ہوگئی- پروین شاکر کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی تھی لیکن یہ رشتہ جلد ہی ٹوٹ گیا-دراصل دونوں کے مزاج میں کافی فرق تھاتو ظاہر ہے یہ علمیہ ذہنی عدم توازن کی وجہ سے ہی پیدا ہوا- پروین شاکر کی وفات 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد کے نزدیک ایک سڑک حادثے میں ہوئی تھی-

سوال –    اپنی یاد سے پروین شاکر کا کوئی ایک شعر لکھیں

جواب –                       گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح                                         

سوال –    پروین شاکر کی ازدواجی زندگی مختصر بیان کیجیے

جواب –   پروین شاکر کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی تھی لیکن یہ رشتہ جلد ہی ٹوٹ گیا-دراصل دونوں کے مزاج میں کافی فرق تھاتو ظاہر ہے یہ علمیہ ذہنی عدم توازن کی وجہ سے ہی پیدا ہوا- ان سے ایک لڑکا بھی پیدا ہوا جس کا نام سیدمرادعلی رکھا گیا-

سوال –    پروین شاکر کی شاعری پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   پروین شاکر اپنی شاعری میں عورتوں کے جذبات بہت ہی شدت کے ساتھ اور فطری انداز میں پیش کرتی ہیں-ان کی غزلوں میں عشق و محبت کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے ساتھ ان میں درد ,کسک اور کرب کو بھی آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے- پروین شاکر کی شاعری دراصل ان کی ناکام محبت کی ترجمانی کا دوسرا نام ہے -اور یہ بات پروین شاکر کی غزلوں کے مطالعے سے اجاگر ہو جاتی ہے- پروین شاکر اپنے جذبات و احساسات کو,حجر انتظار کو, محبوب کی بے وفائی اور بے مروتی کو کچھ اس انداز سے شعری پیکر عطا کرتی ہیں کہ ایک طرف جہاں ان کی شاعری اپنے جذبات کی کہانی معلوم ہوتی ہے وہیں دوسری طرف انہی کی طرح محبت کی ماری دوسری خواتین کی دلی کیفیات کی ترجمان نظر آتی ہے- پروین شاکر عورتوں کی ایک نمائندہ شاعرہ کے طور پر ابھر کر منظر عام پر آئی ہیں- ایسی نمائندہ جو محبت میں ناکام ہونے کے باوجود زندگی سے راہ فرار اختیار نہیں کرتیں بلکہ نرم اور مدھر نسوانی لہجہ کے باوجود نسوانی تحریک کی مضبوط علمبرداری کرتی ہے-

غزل (عرفان صدیقی) 
مختصر ترین سوالات 

سوال –    عرفان صدیقی کا انتقال کس مرض کی وجہ سے ہوا؟

جواب –   عرفان صدیقی کا انتقال برین ٹیومر کی وجہ سے ہوا تھا

سوال –    عرفان صدیقی کا انتقال کب اور کہاں ہوا ہے؟

جواب –   عرفان صدیقی کا انتقال 16 مارچ 2004 کو لکھنؤ میں ہوا تھا

سوال –    عرفان صدیقی کے مجموعے کس نام سے یکجا طور پر شائع ہوئے؟

جواب –   عرفان صدیقی کے مجموعے یکجا طور پر “دریا” کے نام سے شائع ہوئے تھے

سوال –    عرفان صدیقی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کہاں سکونت پذیر ہوئے؟ 

جواب –   ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد عرفان صدیقی لکھنؤ میں سکونت پذیر ہوئے

سوال –    عرفان صدیقی نے کالی داس کا ڈرامہ “مالویکا اگنی مترم” کا ترجمہ کس نام سے کیا؟ 

جواب –   عرفان صدیقی نے کالی داس کے ڈرامہ “مالویکا اگنی مترم” کا ترجمہ “مالیکا اور اگنی متر” کے نام سے کیا-

سوال –    عرفان صدیقی کی غزل گوئی کی خصوصیات بیان کیجیے

جواب –   عرفان صدیقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں- ان کی غزلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے پرانے اور نئے شاعروں کے بھی اثرات قبول کیے ہیں اور ان اثرات نے ان کی غزلوں کو ایک نیا رنگ اور نیا آہنگ عطا کر دیا- اور یہی وہ چیز ہے جس سے وہ اپنے معاصرین میں منفرد غزل گو تسلیم کیے جاتے ہیں-

دوہا  (ظفر گورکھپوری)
مختصر ترین سوالات

سوال –    ظفر گورکھپوری کی پیدائش کب ہوئی؟

جواب –   ظفر گورکھپوری کی پیدائش 5 مئی 1935 کو ہوئی تھی

سوال –    ظفر گورکھپوری کی پیدائش کس ریاست میں ہوئے؟

جواب –   ظفر گورکھپوری کی پیدائش اترپردیس میں ہوئی تھی

سوال –    ظفر گورکھپوری کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہیں؟

جواب –   ظفر گورکھپوری کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت کلاسیکی شاعری اور جدید شاعری کے ساتھ کیے گئے ان کے تجربے کا خوبصورت میلان ہے-

سوال –    بچوں کے لئے ظفر گورکھپوری کے کون سے دو مجموعے شائع ہوئے ہیں؟

جواب –   بچوں کے لئے ظفر گورکھپوری کے درج ذیل دو مجموعے شائع ہوئے ہیں

ناچ ری گڑیا اور سچائیاں- 

سوال –    ظفر گورکھپوری نے کن ملکوں کا دورہ کیا؟ 

جواب –   ظفر گورکھپوری نے امریکہ, سعودی عرب, متحدہ عرب امارات کے دورے کیے ہیں-

 مختصر سوالات 

سوال –    ظفر گورکھپوری کا کون سا دوہا آپ کو سب سے زیادہ اچھا لگا اور کیوں؟ 

جواب –   زیر نصاب ظفر گورکھپوری دوہا مجھے سب سے زیادہ اچھا لگا کیونکہ اس دوہا میں زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہیں-اس میں کہا گیا ہے کہ رات کی عمر بہت لمبی نہیں ہوتی اس کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے-رات کے اس لمحہ کو خواب بننےاور تفریح میں بتانا چاہیے-ظفر گورکھپوری  یہ بھی کہتے ہیں کہ زندگی میں بہت زیادہ سنجیدگی بھی ٹھیک نہیں ہے یہ ایک طرح کا مرض ہے-ظفر گورکھپوری کے دوہے انتہائی سیدھے سادھے الفاظ والے اور آسانی سے سمجھ میں آ جانے والے ہوتے ہیں ان کے دوہوں کا تعلق سیدھے سیدھے ہماری زندگی سے ہوتا ہے-

سوال –    پانچویں دو ہے میں شہروں کی بن باس سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

جواب –   شاعر کے مطابق شہروں کی زندگی بن باس کی زندگی جیسی ہوتی ہے-کیونکہ شہروں میں بھیڑ,چیخ پکار اور بے چینی ہی نصیب ہوتی ہے جہاں چین سے چار پل بھی نصیب نہیں ہوتے ہیں- جو اطمینان اور سکون کسی خاموش جگہ پر کسی پیڑ کے سائے تلے ملتا ہے وہ کہیں اور کہاں-

سوال –    پیڑ پر کلہاڑی گرنے سے شعر کس طرح لہو لوہان ہوا؟

جواب –   شاعر کہتے ہیں کہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے رشتہ اتنا گہرا ہونا چاہیے کہ اگر ایک کو کوئی تکلیف یا پریشانی ہو تو دوسرے کو اس کا احساس ہو جائےاور وہ پریشانی میں مبتلا شخص کی مدد کوآگے آئے- اس کی مثال شاعر نے پیڑ پر کلہاڑی چلانے سے دی  ہے-ظفر گورکھپوری کہتے ہیں کہ اس سے گہرا رشتہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ کوئی پیڑ پر کلہاڑی چلائے تو لگے کہ میں ہی لہو لوہان ہو رہا ہوں-

سوال –    بچوں کے ٹی وی زیادہ دیکھنے پر شاعر کیوں دکھی ہے؟ 

جواب –   شاعر ظفر گورکھپوری کو بچوں کے زیادہ ٹی وی دیکھنے کا بہت افسوس اور دکھ ہے-وہ کہتے ہیں کہ اس عادت سے بچے کتابیں پڑھنے پر کم وقت دیتے ہیں جس سے کتابیں یوں ہی پڑی رہتی ہیں اور انہیں کوئی پڑھنے والا نہیں ہوتا-

سوال –    کمپیوٹر سے کیا نقصان پہنچ رہا ہے؟

جواب –   شاعر بچوں کے اندر کمپیوٹر کی لت پر بھی تشویش اور ڈر ظاہر کرتے ہیں-شاعر کی نظر میں کمپیوٹر نے آدمی کی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت کو چھین لیا ہے- آدمی اپنے ذہن کا استعمال اب کم سے کم کرتا جا رہا ہے-

گیت ( سلام مچھلی شہری)
مختصر سوالات

سوال –    سلام مچھلی شہری کی زندگی پر پانچ جملے لکھیے

جواب –   سلام مچھلی شہری کا اصل نام عبدالسلام تھا-ان کی پیدائش یوپی کے جونپور شہر میں ہوئی تھی-سلام مچھلی شہری نے اپنی ابتدائی تعلیم فیض آباد میں شروع کی- فیض آباد میں قیام کے دوران ہی وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگے جس کے نتیجے میں تحریک آزادی ہند سے بھی وابستہ ہوگئے-انہوں نے 14 سال کی عمر میں شاعری کی شروعات کی اور اپنی پہلی نظم “نیرنگ خیال” لکھا-سلام مچھلی شہری کو منظوم خط لکھنے کی بھی عادت تھی چنانچہ اپنے وقت کے اہم لوگوں کو وہ ایسے خطوط لکھا کرتے تھے-انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن ان کی غزلوں میں وہی انقلاب کی لئے ہے اور یہ لئے کبھی کبھی غربت و افلاس کی دنیا میں انہیں لے جاتی ہے اور یہ دنیا روز اول سے ہی ایک نمایاں موضوع بنی ہوئی ہے-

سوال –    مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل کیوں تعمیر کی؟

جواب –   مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی محبت اور اس کی یاد میں تاج محل کی تعمیر کروائی تھی

سوال –    گیت لکھنے والے چار مسلم شاعروں کے نام بتائیں

جواب –   گیت لکھنے والے چار مسلم شاعروں کے نام درج ذیل ہیں

سلام مچھلی شہری- بیکل اتساہی- اجمل سلطان پوری- زبیر رضوی 

سوال –    اس نظم میں شاعر نے کس کو بنسی بجاتے ہوئے پیش کیا ہے؟

جواب –   اس نظم میں شاعر میں گھن شیام کو درد فراق میں بنسی بجاتے ہوئے پیش کیا ہے

سوال –    آشائیں فنا ہوکر کیا بہاتی ہیں؟ 

جواب –   آشائیں فنا ہوکر بھی امرت رس  بہاتی ہیں

Bihar Board class 10th Solutions and Notes pdf Download Link

बिहार बोर्ड की दूसरी कक्षाओं के लिए Notes और प्रश्न उत्तर

10th क्लास के अलावा बिहार बोर्ड की दूसरी कक्षाओं में पढ़ने वाले छात्र अपने क्लास के अनुसार नीचे दिए गए लिंक से वर्गवार और विषयावर pdf नोट्स डाउनलोड कर सकते हैं। 

Important Links

error: Content is protected !!